برائے اصلاح (مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن)

نوید ناظم

محفلین
چھبتے ہیں جگر میں پھر آزار تو باقی ہیں
چاہت کے ابھی دل میں آثار تو باقی ہیں

بس ہم کو اٹھایا ہے محفل سے ستم گر نے
اُس بزم میں خود دیکھو اغیار تو باقی ہیں

میرے ہی جنوں سے رہتے ہیں بے خبر ورنہ
اس شہر میں اب بھی کچھ پندار تو باقی ہیں

وہ زخم نئے کھا کر لوٹے ہیں زمانے سے
جو لوگ سمجھتے تھے غم خوار تو باقی ہیں

سائے نے چرا لی تھی مجھ سے ہی نظر اپنی
رستے میں تِرے ورنہ اشجار تو باقی ہیں
 

امان زرگر

محفلین
چھبتے ہیں جگر میں پھر آزار تو باقی ہیں
چاہت کے ابھی دل میں آثار تو باقی ہیں

بس ہم کو اٹھایا ہے محفل سے ستم گر نے
اُس بزم میں خود دیکھو اغیار تو باقی ہیں

میرے ہی جنوں سے رہتے ہیں بے خبر ورنہ
اس شہر میں اب بھی کچھ پندار تو باقی ہیں

وہ زخم نئے کھا کر لوٹے ہیں زمانے سے
جو لوگ سمجھتے تھے غم خوار تو باقی ہیں

سائے نے چرا لی تھی مجھ سے ہی نظر اپنی
رستے میں تِرے ورنہ اشجار تو باقی ہیں
اچھی غزل ہے جناب۔۔۔ خیالات بھی بہت اعلٰی ہیں۔۔۔ ڈھیروں داد
 

الف عین

لائبریرین
چھبتے ہیں جگر میں پھر آزار تو باقی ہیں
چاہت کے ابھی دل میں آثار تو باقی ہیں
÷÷ سمجھ میں نہیں آیا۔ ’چھبتے‘ کون سا لفظ ہے۔ اگر یہ ب ھ ت ے چبھتے کا غلط املا بھی ہے تو بھی یہ واضح نہیں ہوتا کہ کیا چیز چبھتی ہے؟ آزار واحد ہوتا ہے، جمع کے طور پر اس کو استعمال کیا جا سکتا ہے؟ دیگر ماہرین سے سوال؟

بس ہم کو اٹھایا ہے محفل سے ستم گر نے
اُس بزم میں خود دیکھو اغیار تو باقی ہیں
۔۔’ستم کرنے‘ کا مطلب ’ستم کرنے کے لیے‘ ہے؟ یہ تو محض دکن کے اخباروں کا لہجہ ہے جو ’کے لیے‘ کو حذف کر دیتے ہیں۔
(تدوین، ابھی پھر غور سے دیکھا تو ’ستمگر نے‘ استعمال کیا گیا ہے، درست ہے شعر)

میرے ہی جنوں سے رہتے ہیں بے خبر ورنہ
اس شہر میں اب بھی کچھ پندار تو باقی ہیں
۔۔پہلا مصرع وزن سے باہر بھاگ نکلا؟؟؟

وہ زخم نئے کھا کر لوٹے ہیں زمانے سے
جو لوگ سمجھتے تھے غم خوار تو باقی ہیں
÷÷’جو لوگ سمجھتے تھے‘ کا فقرہ واضح نہیں۔ جن کو لوگ غم خوار سمجھتے تھے۔ یا لوگ یہ سمجھتے تھے کہ غم خوار باقی نہیں رہے؟

سائے نے چرا لی تھی مجھ سے ہی نظر اپنی
رستے میں تِرے ورنہ اشجار تو باقی ہیں
÷÷اچھا شعر ہے، بس ’تھی‘ کو ’ہے‘ سے بدل دو۔
 

نوید ناظم

محفلین
چھبتے ہیں جگر میں پھر آزار تو باقی ہیں
چاہت کے ابھی دل میں آثار تو باقی ہیں
÷÷ سمجھ میں نہیں آیا۔ ’چھبتے‘ کون سا لفظ ہے۔ اگر یہ ب ھ ت ے چبھتے کا غلط املا بھی ہے تو بھی یہ واضح نہیں ہوتا کہ کیا چیز چبھتی ہے؟ آزار واحد ہوتا ہے، جمع کے طور پر اس کو استعمال کیا جا سکتا ہے؟ دیگر ماہرین سے سوال؟

بس ہم کو اٹھایا ہے محفل سے ستم گر نے
اُس بزم میں خود دیکھو اغیار تو باقی ہیں
۔۔’ستم کرنے‘ کا مطلب ’ستم کرنے کے لیے‘ ہے؟ یہ تو محض دکن کے اخباروں کا لہجہ ہے جو ’کے لیے‘ کو حذف کر دیتے ہیں۔
(تدوین، ابھی پھر غور سے دیکھا تو ’ستمگر نے‘ استعمال کیا گیا ہے، درست ہے شعر)

میرے ہی جنوں سے رہتے ہیں بے خبر ورنہ
اس شہر میں اب بھی کچھ پندار تو باقی ہیں
۔۔پہلا مصرع وزن سے باہر بھاگ نکلا؟؟؟

وہ زخم نئے کھا کر لوٹے ہیں زمانے سے
جو لوگ سمجھتے تھے غم خوار تو باقی ہیں
÷÷’جو لوگ سمجھتے تھے‘ کا فقرہ واضح نہیں۔ جن کو لوگ غم خوار سمجھتے تھے۔ یا لوگ یہ سمجھتے تھے کہ غم خوار باقی نہیں رہے؟

سائے نے چرا لی تھی مجھ سے ہی نظر اپنی
رستے میں تِرے ورنہ اشجار تو باقی ہیں
÷÷اچھا شعر ہے، بس ’تھی‘ کو ’ہے‘ سے بدل دو۔

بہت شکریہ سر آپ شفقت فرماتے ہیں۔

÷÷ سمجھ میں نہیں آیا۔ ’چھبتے‘ کون سا لفظ ہے۔ اگر یہ ب ھ ت ے چبھتے کا غلط املا بھی ہے تو بھی یہ واضح نہیں ہوتا کہ کیا چیز چبھتی ہے؟ آزار واحد ہوتا ہے، جمع کے طور پر اس کو استعمال کیا جا سکتا ہے؟ دیگر ماہرین سے سوال؟
املا کی غلطی پر معزرت' ٹائپو ہو گیا مجھ سے۔
سر آزار کو جمع میں استعمال تو کیا گیا ہے' حالی کا یہ شعر دیکھیے گا۔۔
اپنے پرائے کی دھتکاری
میکے اور سسرال پہ بھاری
سہہ کے بہت آزار چلی ہوں
دنیا سے بیزار چلی ہوں
سر یہ کہنے کی کوشش کی تھی کہ اگر جگر میں چبھ رہے ہیں تو اس کا مطلب پھر یہی ہے کہ آزار باقی ہیں' سر آزار کا چبھنا تو ایک مستعمل ترکیب نہیں؟ اکیلا مصرعہ گرچہ معنویت سے محروم ہے لیکن دوسرا مصرعہ مل کر شعر کا مفہوم ادا نہیں کر رہا؟

میرے ہی جنوں سے رہتے ہیں بے خبر ورنہ
اس شہر میں اب بھی کچھ پندار تو باقی ہیں
۔۔پہلا مصرع وزن سے باہر بھاگ نکلا؟؟؟
سر پہلا مصرعہ بدل دیا ہے' اب شعر یوں ہوا۔۔
میرے ہی جنوں سے ہیں یہ سب بے خبر ورنہ
اس شہر میں اب بھی کچھ پندار تو باقی ہیں

وہ زخم نئے کھا کر لوٹے ہیں زمانے سے
جو لوگ سمجھتے تھے غم خوار تو باقی ہیں
÷÷’جو لوگ سمجھتے تھے‘ کا فقرہ واضح نہیں۔ جن کو لوگ غم خوار سمجھتے تھے۔ یا لوگ یہ سمجھتے تھے کہ غم خوار باقی نہیں رہے؟
سر یہ کہنے کہ کوشش تھی کہ وہ لوگ جو سمجھتے تھے کہ غم خوار تو آج بھی پائے جاتے ہیں وہ زمانے سے نئے غم لے کر لوٹے ہیں۔ (یعنی اب غلط فہمی کا ازالہ ہوا گیا ہے)

سائے نے چرا لی تھی مجھ سے ہی نظر اپنی
رستے میں تِرے ورنہ اشجار تو باقی ہیں
÷÷اچھا شعر ہے، بس ’تھی‘ کو ’ہے‘ سے بدل دو۔
شکریہ سر' حکم کے مطابق کر دیا۔
 

الف عین

لائبریرین
سر یہ کہنے کہ کوشش تھی کہ وہ لوگ جو سمجھتے تھے کہ غم خوار تو آج بھی پائے جاتے ہیں وہ زمانے سے نئے غم لے کر لوٹے ہیں۔ (یعنی اب غلط فہمی کا ازالہ ہوا گیا ہے)
مطلب ہر جگہ شعر کے ساتھ ساتھ تم بھی موجود ہو گے مطلب سمجھانے کے لیے!!
 

نوید ناظم

محفلین
بحر سے خارج ہے یہ مصرع، شاید ’بے خٌبر‘ کی ’ے‘ گرائی جا رہی ہے۔ یہ غلط ہے
اوہ' مجھے لگا شاید آپ کا اشارہ بحر کے ایک حصے میں حروف ٹوٹنے کی طرف ہے۔۔۔
متبادل دیکھیے گا سر۔۔
میرے ہی جنوں کی کچھ رکھی نہ خبر ورنہ
اس شہر میں اب بھی کچھ پندار تو باقی ہیں
 

الف عین

لائبریرین
پندار والا درست ہو گیا ہے شعر۔ البتہ غم کا چارہ درست نہیں کر رہا ہے۔
افسوس علاجِ غم کوئی بھی نہیں کرتا
یا

دکھ درد کا چارہ اب کوئی بھی نہیں کرتا
یہ اس وجہ سے تجویز کر رہا ہوں کہ دو ٹکڑوں میں منقسم بحر میں فقرہ نہیں ٹوٹنا چاہیے۔ ویسے تمہارے مصرع میں اور کوئی غلطی نہیں ہے۔
کوئی بھی یہاں پر غم ۔۔۔۔ کا چارہ نہیں کرتا
غم اور اس کا چارہ دونوں الگ ٹکڑوں میں آ رہے ہیں۔
 

نوید ناظم

محفلین
پندار والا درست ہو گیا ہے شعر۔ البتہ غم کا چارہ درست نہیں کر رہا ہے۔
افسوس علاجِ غم کوئی بھی نہیں کرتا
یا

دکھ درد کا چارہ اب کوئی بھی نہیں کرتا
یہ اس وجہ سے تجویز کر رہا ہوں کہ دو ٹکڑوں میں منقسم بحر میں فقرہ نہیں ٹوٹنا چاہیے۔ ویسے تمہارے مصرع میں اور کوئی غلطی نہیں ہے۔
کوئی بھی یہاں پر غم ۔۔۔۔ کا چارہ نہیں کرتا
غم اور اس کا چارہ دونوں الگ ٹکڑوں میں آ رہے ہیں۔
سر بہت شکریہ۔۔۔ آپ نے دوسرا مصرعہ جو عطا کیا ہے وہ لے لیا۔
 
Top