چھبتے ہیں جگر میں پھر آزار تو باقی ہیں
چاہت کے ابھی دل میں آثار تو باقی ہیں
÷÷ سمجھ میں نہیں آیا۔ ’چھبتے‘ کون سا لفظ ہے۔ اگر یہ ب ھ ت ے چبھتے کا غلط املا بھی ہے تو بھی یہ واضح نہیں ہوتا کہ کیا چیز چبھتی ہے؟ آزار واحد ہوتا ہے، جمع کے طور پر اس کو استعمال کیا جا سکتا ہے؟ دیگر ماہرین سے سوال؟
بس ہم کو اٹھایا ہے محفل سے ستم گر نے
اُس بزم میں خود دیکھو اغیار تو باقی ہیں
۔۔’ستم کرنے‘ کا مطلب ’ستم کرنے کے لیے‘ ہے؟ یہ تو محض دکن کے اخباروں کا لہجہ ہے جو ’کے لیے‘ کو حذف کر دیتے ہیں۔
(تدوین، ابھی پھر غور سے دیکھا تو ’ستمگر نے‘ استعمال کیا گیا ہے، درست ہے شعر)
میرے ہی جنوں سے رہتے ہیں بے خبر ورنہ
اس شہر میں اب بھی کچھ پندار تو باقی ہیں
۔۔پہلا مصرع وزن سے باہر بھاگ نکلا؟؟؟
وہ زخم نئے کھا کر لوٹے ہیں زمانے سے
جو لوگ سمجھتے تھے غم خوار تو باقی ہیں
÷÷’جو لوگ سمجھتے تھے‘ کا فقرہ واضح نہیں۔ جن کو لوگ غم خوار سمجھتے تھے۔ یا لوگ یہ سمجھتے تھے کہ غم خوار باقی نہیں رہے؟
سائے نے چرا لی تھی مجھ سے ہی نظر اپنی
رستے میں تِرے ورنہ اشجار تو باقی ہیں
÷÷اچھا شعر ہے، بس ’تھی‘ کو ’ہے‘ سے بدل دو۔
بہت شکریہ سر آپ شفقت فرماتے ہیں۔
÷÷ سمجھ میں نہیں آیا۔ ’چھبتے‘ کون سا لفظ ہے۔ اگر یہ ب ھ ت ے چبھتے کا غلط املا بھی ہے تو بھی یہ واضح نہیں ہوتا کہ کیا چیز چبھتی ہے؟ آزار واحد ہوتا ہے، جمع کے طور پر اس کو استعمال کیا جا سکتا ہے؟ دیگر ماہرین سے سوال؟
املا کی غلطی پر معزرت' ٹائپو ہو گیا مجھ سے۔
سر آزار کو جمع میں استعمال تو کیا گیا ہے' حالی کا یہ شعر دیکھیے گا۔۔
اپنے پرائے کی دھتکاری
میکے اور سسرال پہ بھاری
سہہ کے بہت آزار چلی ہوں
دنیا سے بیزار چلی ہوں
سر یہ کہنے کی کوشش کی تھی کہ اگر جگر میں چبھ رہے ہیں تو اس کا مطلب پھر یہی ہے کہ آزار باقی ہیں' سر آزار کا چبھنا تو ایک مستعمل ترکیب نہیں؟ اکیلا مصرعہ گرچہ معنویت سے محروم ہے لیکن دوسرا مصرعہ مل کر شعر کا مفہوم ادا نہیں کر رہا؟
میرے ہی جنوں سے رہتے ہیں بے خبر ورنہ
اس شہر میں اب بھی کچھ پندار تو باقی ہیں
۔۔پہلا مصرع وزن سے باہر بھاگ نکلا؟؟؟
سر پہلا مصرعہ بدل دیا ہے' اب شعر یوں ہوا۔۔
میرے ہی جنوں سے ہیں یہ سب بے خبر ورنہ
اس شہر میں اب بھی کچھ پندار تو باقی ہیں
وہ زخم نئے کھا کر لوٹے ہیں زمانے سے
جو لوگ سمجھتے تھے غم خوار تو باقی ہیں
÷÷’جو لوگ سمجھتے تھے‘ کا فقرہ واضح نہیں۔ جن کو لوگ غم خوار سمجھتے تھے۔ یا لوگ یہ سمجھتے تھے کہ غم خوار باقی نہیں رہے؟
سر یہ کہنے کہ کوشش تھی کہ وہ لوگ جو سمجھتے تھے کہ غم خوار تو آج بھی پائے جاتے ہیں وہ زمانے سے نئے غم لے کر لوٹے ہیں۔ (یعنی اب غلط فہمی کا ازالہ ہوا گیا ہے)
سائے نے چرا لی تھی مجھ سے ہی نظر اپنی
رستے میں تِرے ورنہ اشجار تو باقی ہیں
÷÷اچھا شعر ہے، بس ’تھی‘ کو ’ہے‘ سے بدل دو۔
شکریہ سر' حکم کے مطابق کر دیا۔