نوید ناظم
محفلین
بندھن سے ارے جاں کو چھڑا کیوں نہیں لیتے
وعدہ ہی تو ہے اس کو نبھا کیوں نہیں لیتے
فاقے میں مِری جان سبھی کچھ ہے غنیمت
ملتا ہے جو دھوکا تو یہ کھا کیوں نہیں لیتے
یہ درد بھی تو ایک کمائی ہے تمہاری
پھر دوست یہ پونجی بھی بچا کیوں نہیں لیتے
لو آج بھی کہتے ہیں بنا لو ہمیں اپنا
لو مفت جو ملتی ہے دعا کیوں نہیں لیتے
سورج نے بھی لے لی ہیں اسی چہرے سے کرنیں
اس زلف سے پھر تم بھی گھٹا کیوں نہیں لیتے
وعدہ ہی تو ہے اس کو نبھا کیوں نہیں لیتے
فاقے میں مِری جان سبھی کچھ ہے غنیمت
ملتا ہے جو دھوکا تو یہ کھا کیوں نہیں لیتے
یہ درد بھی تو ایک کمائی ہے تمہاری
پھر دوست یہ پونجی بھی بچا کیوں نہیں لیتے
لو آج بھی کہتے ہیں بنا لو ہمیں اپنا
لو مفت جو ملتی ہے دعا کیوں نہیں لیتے
سورج نے بھی لے لی ہیں اسی چہرے سے کرنیں
اس زلف سے پھر تم بھی گھٹا کیوں نہیں لیتے
مدیر کی آخری تدوین: