زبیر صدیقی
محفلین
تمام احباب و اساتذہ کو سلام۔ ایک تازہ غزل پیش ہے جو کہ کرونا وائرس کے حالات کی مناسبت سے کہی۔ برائے مہربانی اصلاح فرمائیں۔
الف عین محمد خلیل الرحمٰن سید عاطف علی محمد احسن سمیع راحل
رہِ عدم پہ رواں قافلوں کا موسم ہے
میانِ خلق ابھی فاصلوں کا موسم ہے
ذرا سا اور مؤخّر کرو سفر اپنا
تمھارے پاؤں تلے آبلوں کا موسم ہے
سکوں بھی سہل نہیں اور عمل نہیں آساں
قرارِ جاں پہ عجب مُشکلوں کا موسم ہے
تھا زندگی کے توازن یا بندگی میں خلل
خیال و سوچ کے اِن سِلسِلوں کا موسم ہے
نہ ہی یہ وقت ہے ارباب سے شکایت کا
نہ ہی یہ قدر و قضا سے گِلوں کا موسم ہے
یہیں ہے مسئلہ، حل بھی یہیں کہیں ہو گا
یہ ہمّتوں کا یہی حوصلوں کا موسم ہے
میں کیا ہوں، کب سے ہوں، کیوں ہوں، کہاں ہوں، کون ہوں میں
حریمِ ذات میں اب داخلوں کا موسم ہے
خودی کی فکر رہے یا خدا کا ذکر رہے
یہ خلوتوں میں چھُپی محفلوں کا موسم ہے
والسلام
الف عین محمد خلیل الرحمٰن سید عاطف علی محمد احسن سمیع راحل
رہِ عدم پہ رواں قافلوں کا موسم ہے
میانِ خلق ابھی فاصلوں کا موسم ہے
ذرا سا اور مؤخّر کرو سفر اپنا
تمھارے پاؤں تلے آبلوں کا موسم ہے
سکوں بھی سہل نہیں اور عمل نہیں آساں
قرارِ جاں پہ عجب مُشکلوں کا موسم ہے
تھا زندگی کے توازن یا بندگی میں خلل
خیال و سوچ کے اِن سِلسِلوں کا موسم ہے
نہ ہی یہ وقت ہے ارباب سے شکایت کا
نہ ہی یہ قدر و قضا سے گِلوں کا موسم ہے
یہیں ہے مسئلہ، حل بھی یہیں کہیں ہو گا
یہ ہمّتوں کا یہی حوصلوں کا موسم ہے
میں کیا ہوں، کب سے ہوں، کیوں ہوں، کہاں ہوں، کون ہوں میں
حریمِ ذات میں اب داخلوں کا موسم ہے
خودی کی فکر رہے یا خدا کا ذکر رہے
یہ خلوتوں میں چھُپی محفلوں کا موسم ہے
والسلام