مقبول
محفلین
محترم الف عین صاحب، دیگر اساتذہ کرام اور احباب سے اصلاح کی درخواست کے ساتھ ایک غزل پیشِ خدمت ہے
میں وُہ پرانا ورق ہوں جو اب نئی کتابوں سے پھٹ چکا ہوں
امین ہوں میں قدامتوں کا ، جدید طرزوں سے کٹ چکا ہوں
جو مجھ کو لکھتے ہیں اک پتے پر انہیں یہ شاید خبر نہیں ہے
کہ جب سے تم سے جدا ہوا ہوں میں کتنے ٹکڑوں میں بٹ چکا ہوں
ہیں اور کیا مجھ سے چاہتے میری پیش قدمی سے خوش نہ تھے جو
اب الٹے قدموں پہ چلتے چلتے میں قبر تک تو سمٹ چکا ہوں
کہیں تو ملتا وصال کا لفظ زندگی کی کتاب میں بھی
فراق کی ہے کہانی ہر سو، میں جتنے اوراق الٹ چکا ہوں
نہ وُہ تکیں میرے آنے کی راہ اپنے گھر کے جھروکوں سے اب
میں اپنا مذہب بدل چکا ہوں میں راہِ الفت سے ہٹ چکا ہوں
عبادتیں صبح و شام کی ہیں نہ کام کی ہیں مری دعائیں
نہ ہو گی توبہ قبول میری ، میں جن گناہوں سے اٹ چکا ہوں
حسین چہروں سے ہار جانے میں بھی تو مقبول اک نشہ ہے
ہے خلق حیراں کہ مہ وشوں سے میں جیتی بازی الٹ چکا ہوں
میں وُہ پرانا ورق ہوں جو اب نئی کتابوں سے پھٹ چکا ہوں
امین ہوں میں قدامتوں کا ، جدید طرزوں سے کٹ چکا ہوں
جو مجھ کو لکھتے ہیں اک پتے پر انہیں یہ شاید خبر نہیں ہے
کہ جب سے تم سے جدا ہوا ہوں میں کتنے ٹکڑوں میں بٹ چکا ہوں
ہیں اور کیا مجھ سے چاہتے میری پیش قدمی سے خوش نہ تھے جو
اب الٹے قدموں پہ چلتے چلتے میں قبر تک تو سمٹ چکا ہوں
کہیں تو ملتا وصال کا لفظ زندگی کی کتاب میں بھی
فراق کی ہے کہانی ہر سو، میں جتنے اوراق الٹ چکا ہوں
نہ وُہ تکیں میرے آنے کی راہ اپنے گھر کے جھروکوں سے اب
میں اپنا مذہب بدل چکا ہوں میں راہِ الفت سے ہٹ چکا ہوں
عبادتیں صبح و شام کی ہیں نہ کام کی ہیں مری دعائیں
نہ ہو گی توبہ قبول میری ، میں جن گناہوں سے اٹ چکا ہوں
حسین چہروں سے ہار جانے میں بھی تو مقبول اک نشہ ہے
ہے خلق حیراں کہ مہ وشوں سے میں جیتی بازی الٹ چکا ہوں