الف عین
لائبریرین
میرے خیال میں مطلع دوسرا دوبارہ کہا جائے، پرانا ورق پھٹنے کی غلطی کے علاوہ جدید طرزوں سے کٹنا بھی عجیب ہے، گویا پہلے جدید تھے، اور اب کٹ چکے ہیں! اصل میں زمین ایسی سنگلاخ لے لی ہے کہ قوافی گنے چنے ہی استعمال ہو سکتے ہیںمحترم الف عین صاحب، دیگر اساتذہ کرام اور احباب سے اصلاح کی درخواست کے ساتھ ایک غزل پیشِ خدمت ہے
میں وُہ پرانا ورق ہوں جو اب نئی کتابوں سے پھٹ چکا ہوں
امین ہوں میں قدامتوں کا ، جدید طرزوں سے کٹ چکا ہوں
بس اک پتے... بہتر ہے لیکن اس طرح نہیں جیسے ترمیم کی گئی ہے، مثلاًجو مجھ کو لکھتے ہیں اک پتے پر انہیں یہ شاید خبر نہیں ہے
کہ جب سے تم سے جدا ہوا ہوں میں کتنے ٹکڑوں میں بٹ چکا ہوں
بس اک پتے پر جو خط مجھے لکھ رہے ہیں، ان کو خبر نہیں ہے
دوسرا مصرع قبول کیا جا سکتا ہے لیکن پہلا مصرع روانی مخدوش ہے۔'نہ تھے' ہی کیوں؟ہیں اور کیا مجھ سے چاہتے میری پیش قدمی سے خوش نہ تھے جو
اب الٹے قدموں پہ چلتے چلتے میں قبر تک تو سمٹ چکا ہوں
وہ اور کیا چاہتے ہیں مجھ سے....
وہ اور کیا چاہتے ہیں میری جو پیش قدمی سے خوش نہیں ہیں
یا کوئی اور شکل
کہانی کی ی کا اسقاط ناگوار ہےکہیں تو ملتا وصال کا لفظ زندگی کی کتاب میں بھی
فراق کی ہے کہانی ہر سو، میں جتنے اوراق الٹ چکا ہوں
فراق کی داستاں ہے بکھری میں جتنے...( ہے ہر سو میں تنافر ہے، اس لئے بدلنے کی کوشش کی ہے)
پہلے مصرع کی روانی بہتر کرونہ وُہ تکیں میرے آنے کی راہ اپنے گھر کے جھروکوں سے اب
میں اپنا مذہب بدل چکا ہوں میں راہِ الفت سے ہٹ چکا ہوں
دوسرے میں بھی پہلی جگہ "چکا ہوں" کا بیانیہ بدلو۔
عبادتیں صبح و شام کی ہیں نہ کام کی ہیں مری دعائیں
نہ ہو گی توبہ قبول میری ، میں جن گناہوں سے اٹ چکا ہوں
نشہ تو چل سکتا ہے، لیکن بازی خود ہی الٹتی ہے، میں بازی الٹ چکا ہوں مجھے درست نہیں لگ رہاحسین چہروں سے ہار جانے میں بھی تو مقبول اک نشہ ہے
ہے خلق حیراں کہ مہ وشوں سے میں جیتی بازی الٹ چکا ہوں