محمد عبدالرؤوف صاحب کے حکم پر اصلاح شدہ مکمل غزل پیشِ خدمت ہے
چاند جیسے ہو ستاروں میں کھڑا، اچھا لگا
وُہ مجھے سب سے الگ سب سے جدا اچھا لگا
عشق کا اقرار جب اس نے کیا اچھا لگا
وُہ سراپا پیار میں ڈوبا ہوا اچھا لگا
دل میں چاہے اس کے ہے بے باک جذبہ پیار کا
آنکھ میں رکھتا ہے وُہ شرم و حیا ، اچھا لگا
عادتیں اس کی مجھے معصوم سی اچھی لگیں
مُنہ پہ اُنگلی رکھ کے مجھ کو روکنا اچھا لگا
دیکھ لیتا تھا مجھے پردہ ہٹا کر وُہ کبھی
مجھ کو اس کے گھر کے باہر بیٹھنا اچھا لگا
ہر گھڑی لگتا ہے اچھا وُہ مگر اُتنا نہیں
میرے جانے پر جو وُہ روٹھا ہوا اچھا لگا
جانتا تھا یوں تو سارا شہر تکلیفیں مری
وُہ بھی میرے درد سے تھا آشنا ،اچھا لگا
پھیرتا اچھا لگا بالوں میں میرے انگلیاں
زخم وُہ مقبول میرے چومتا اچھا لگا