برائے اصلاح و تنقید (غزل 47)

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
امان بھائی ، جیسا کہ ریحان اور تابش صاحبان نے کہا ہے یہ قوافی ٹھیک نہیں ہیں ۔ ان میں اختلافِ روی ہے ۔ لیکن دوسری بات یہ ہے کہ اب جدید شعراء کی ایک کثیر تعداد اس طرح کے قوافی عام استعمال کر رہی ہے اور امر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔میری رائے میں نظریہء ضرورت کے تحت قافیہ کے کچھ نئے اصول و قواعد آنے چاہئیں ۔ جب افتخار عارف جیسا معتبر شاعر
’’کوئی تو ہو جو مری وحشتوں کا ساتھی ہو۔۔۔۔۔دیارِ نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو ‘‘ جیسی خوبصورت غزل تخلیق کرتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ علمِ قافیہ کو ارتقا کی ضرورت ہے ۔ میں اس پر پچھلے تین سالوں سے کام کررہا ہوں۔ میں نے کچھ متبادل اصولِ قافیہ تجویز کئے ہیں ۔ کام تقریبا مکمل ہوچکا ۔ بس اسے ترتیب و تدوین اور نظرِ ثانی وغیرہ کے مراحل سے گزارنا ہے ۔ شاید کچھ دنوں میں قابلِ اشاعت ہوجائے ۔
میں اگرچہ روایت پسند ہوں اور غزل کے کلاسیکی اصولوں سے انحراف پسند نہیں کرتا لیکن میری بھی ایک غزل اسی طرح کے قوافی کے ساتھ ہے ۔ اس صفحے پر موجود ہے ۔ :):):)

یہ شاعری تو نہیں ہماری ، یہ روزنامہ ہے ہجرتوں کا

لیکن سچی بات یہی ہے کہ جو خوبصورتی پابند اصول قوافی کی ہے وہ اس طرح کے قوافی میں نہیں ۔
 

امان زرگر

محفلین
آئندہ قوافی کے چناؤ کے وقت دیوانِ غالب سے ہی قوافی لینے ہیں بس۔۔۔۔۔ ''سن اٹھارہ سو انہتر'' سے بعد والے قوافی کا استعمال ممنوع ٹھہرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اکیسویں صدی دے موبائل تے عروض ڈاٹ کام دی ویب سائیٹ نوں استعمال کر کے۔۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
اس قسم کے قوافیوں پر میں تو گرفت نہیں کر سکتا۔ حرف روی والے اصولوں سے میں مکمل اتفاق نہیں رکھتا۔ یعنی یہ کہ ما قبل حروف بھی با معنی الفاظ ہوں۔ دیکھتے دیکھتے اور سوچتے سوچتے جیست قوافی بھی مشہور شاعروں نے کہے ہیں۔ جن کو غلط مانتا ہوں، کہ ۔’تے‘ مشترک حروف سے قبل دیکھ اور سوچ قوافی نہیں۔ لیکن لوں، اور بوں (سوالوں، خوابوں) درست قوافی ہیں۔(حالانکہ ما قبل کے ’سوا‘ اور ’خوا ‘مکمل الفاظ نہیں)
 

الف عین

لائبریرین
مطلع چل سکتا ہے۔ لیکن باقی اشعار
جب سیندھ لگ رہی ہو ایمان پر ہمارے
محفوظ کس طرح ہو میراث آنگنوں میں
÷÷آنگن کی میراث کا آنگن سے تعلق؟

شکوہ کروں تو کس سے، لٹ جائے قافلہ گر
یاران و ہم نفس ہیں صف بستہ رہزنوں میں
÷÷پہلا نصرع ’گر‘ پر ختم ہونا اچھا نہیں لگتا۔ اس کو ’جب‘ سے بدل دیں اور دونوں ٹکڑوں کو آپس میں بدل دیں
لٹ جائے قافلہ جب، شکوہ کروں تو کس سے
میرے خیال میں روانی میں اضافہ محسوس ہوتا ہے۔

حاصل ہو کیا اے واعظ تلقینِ لا الٰہ سے
خود تیرا نقشِ پا ہی لے جائے گر بتوں میں
÷÷ ’اے‘ کی بات ہو چکی۔ نقش پا کیسے لے جا سکتا ہے؟ اس کی رہنمائی میں؟ واضح نہیں۔
آخری شعر دہلیز سےدرست ہو گیا
 

امان زرگر

محفلین
۔۔۔۔
پر درد ساعتوں میں دل بے قرار ہو گا
پر پیچ الجھنوں میں ہستی کا تار ہو گا

اترائے نامۂِ دل، دہلیزِ یار پا کر
ردی کے کاغذوں میں اس کا شمار ہو گا

لٹ جائے قافلہ جب، شکوہ کروں تو کس سے
صف بستہ رہزنوں میں میرا ہی یار ہو گا

حاصل ہو کیا اے واعظ تلقینِ لا الٰہ سے
جب تیرا دل بتوں پر ہر دم نثار ہو گا

برباد ہو رہیں ہوں جب عزتیں گلی میں
بارش نہیں فلک سے نازل غبار ہو گا
 

الف عین

لائبریرین
پر درد ساعتوں میں دل بے قرار ہو گا
پر پیچ الجھنوں میں ہستی کا تار ہو گا
۔۔۔ بستی کا تار؟ شعر سمجھ میں نہیں آیا

اترائے نامۂِ دل، دہلیزِ یار پا کر
ردی کے کاغذوں میں اس کا شمار ہو گا
۔۔۔ محض نامہ کہیں تو؟ کہیں اس امکان یا خوف کا بھی اظہار ہو جاتا کہ نامے کا یہ مستقبل ہو سکتا ہے تو بہتر تھا۔

لٹ جائے قافلہ جب، شکوہ کروں تو کس سے
صف بستہ رہزنوں میں میرا ہی یار ہو گا
۔۔۔ٹھیک
حاصل ہو کیا اے واعظ تلقینِ لا الٰہ سے
جب تیرا دل بتوں پر ہر دم نثار ہو گا
۔۔۔ لا الہ کی تلقین سے کیا مراد ہے؟

برباد ہو رہیں ہوں جب عزتیں گلی میں
بارش نہیں فلک سے نازل غبار ہو گا
۔۔۔۔ 'گلیوں' کہنا بہتر نہیں؟ محص غبار سے عذاب مراد لینا بھی عجیب لگتا ہے
 
Top