ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
امان بھائی ، جیسا کہ ریحان اور تابش صاحبان نے کہا ہے یہ قوافی ٹھیک نہیں ہیں ۔ ان میں اختلافِ روی ہے ۔ لیکن دوسری بات یہ ہے کہ اب جدید شعراء کی ایک کثیر تعداد اس طرح کے قوافی عام استعمال کر رہی ہے اور امر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔میری رائے میں نظریہء ضرورت کے تحت قافیہ کے کچھ نئے اصول و قواعد آنے چاہئیں ۔ جب افتخار عارف جیسا معتبر شاعر
’’کوئی تو ہو جو مری وحشتوں کا ساتھی ہو۔۔۔۔۔دیارِ نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو ‘‘ جیسی خوبصورت غزل تخلیق کرتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ علمِ قافیہ کو ارتقا کی ضرورت ہے ۔ میں اس پر پچھلے تین سالوں سے کام کررہا ہوں۔ میں نے کچھ متبادل اصولِ قافیہ تجویز کئے ہیں ۔ کام تقریبا مکمل ہوچکا ۔ بس اسے ترتیب و تدوین اور نظرِ ثانی وغیرہ کے مراحل سے گزارنا ہے ۔ شاید کچھ دنوں میں قابلِ اشاعت ہوجائے ۔
میں اگرچہ روایت پسند ہوں اور غزل کے کلاسیکی اصولوں سے انحراف پسند نہیں کرتا لیکن میری بھی ایک غزل اسی طرح کے قوافی کے ساتھ ہے ۔ اس صفحے پر موجود ہے ۔
یہ شاعری تو نہیں ہماری ، یہ روزنامہ ہے ہجرتوں کا
لیکن سچی بات یہی ہے کہ جو خوبصورتی پابند اصول قوافی کی ہے وہ اس طرح کے قوافی میں نہیں ۔
’’کوئی تو ہو جو مری وحشتوں کا ساتھی ہو۔۔۔۔۔دیارِ نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو ‘‘ جیسی خوبصورت غزل تخلیق کرتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ علمِ قافیہ کو ارتقا کی ضرورت ہے ۔ میں اس پر پچھلے تین سالوں سے کام کررہا ہوں۔ میں نے کچھ متبادل اصولِ قافیہ تجویز کئے ہیں ۔ کام تقریبا مکمل ہوچکا ۔ بس اسے ترتیب و تدوین اور نظرِ ثانی وغیرہ کے مراحل سے گزارنا ہے ۔ شاید کچھ دنوں میں قابلِ اشاعت ہوجائے ۔
میں اگرچہ روایت پسند ہوں اور غزل کے کلاسیکی اصولوں سے انحراف پسند نہیں کرتا لیکن میری بھی ایک غزل اسی طرح کے قوافی کے ساتھ ہے ۔ اس صفحے پر موجود ہے ۔
یہ شاعری تو نہیں ہماری ، یہ روزنامہ ہے ہجرتوں کا
لیکن سچی بات یہی ہے کہ جو خوبصورتی پابند اصول قوافی کی ہے وہ اس طرح کے قوافی میں نہیں ۔