الف عین
لائبریرین
اچھا ہے۔ اگرچہ محاورہ دور از کار ہے۔۔۔
کب اجل آئے کہ جاں بخشی ہو
درد ہستی کے تو سر تک پہنچے
عظیم کی بات درست سہی، لیکن تمام ممکنہ صورتوں میں بہتر تو یہی محسوس ہوتا ہے
چشمِ پرنم سے صدف کی صورت
قطرہ ٹپکے تو گہر تک پہنچے
اچھا ہے۔ اگرچہ محاورہ دور از کار ہے۔۔۔
کب اجل آئے کہ جاں بخشی ہو
درد ہستی کے تو سر تک پہنچے
سر اگر خیال کو یوں بدلا جائے تو کیا خیال ہے آپکا۔۔۔اچھا ہے۔ اگرچہ محاورہ دور از کار ہے
عظیم کی بات درست سہی، لیکن تمام ممکنہ صورتوں میں بہتر تو یہی محسوس ہوتا ہے
چشمِ پرنم سے صدف کی صورت
قطرہ ٹپکے تو گہر تک پہنچے
۔۔۔
حال اربابِ اثر تک پہنچے
بھیک پھر کاسۂِ سر تک پہنچے
عشق جب ہاتھ میں تیشہ پکڑے
بات اعجازِ ہنر تک پہنچے
چار تنکے ہیں مرا سرمایہ
یہ صدا برق و شرر تک پہنچے
چشمِ تر کے جو صدف سے ٹپکے
رتبہ قطرے کا گہر تک پہنچے
بجھ گیا دیکھ چراغِ سحری
قافلے شب کے سحر تک پہنچے
وہ قبرہ جو صدف کی چشم تر سے ٹپکے، اس کا مرتبہ گہر تک پہنچ(رہا ہ)ےسر الف عین سر محمد ریحان قریشی آپ کی شفقت درکار ہے کیا اس ذیل کے شعر کی خامیوں پہ دوبارہ مفصل گفتگو ہو سکتی ہے؟
چشمِ تر کے جو صدف سے ٹپکے
رتبہ قطرے کا گہر تک پہنچے
وہ قبرہ جو صدف کی چشم تر سے ٹپکے، اس کا مرتبہ گہر تک پہنچ(رہا ہ)ے
اس نثر کو درست وزن میں کر سکیں تو بہترین ہو۔ دئے گئے شعر میں یہ مفہوم نہیں سما سکتا۔
سر محمد ریحان قریشیمجھے تو یہ پسند آیا
قطرہ جو چشمِ صدف سے ٹپکے
مرتبے میں وہ گہر تک پہنچے
دوسرے احباب کیا کہتے ہیں؟؟
اشک ریزاں کو ''اشک افشاں'' سے بدلا جا سکتا ہے اگر اس میں یہ خامیاں نہ ہوں۔ یا اس شعر کا غزل میں ہونا کچھ یوں ضروری بھی نہیں ہے۔۔۔درست ہے غزل۔ اشک ریزاں عام طور پر اردو میں استعمال نہیں ہوتا، اگرچہ لغت کے حساب سے درست ہے۔ اس لفظ میں کچھ غرابت ہے۔