امان زرگر
محفلین
۔۔۔
وہ عشق جو تھا، پہاڑ کیسے اکھڑ نہ جاتا!
وگرنہ کوشش عبث تھی پل میں پچھڑ نہ جاتا!
جڑا رہا تلخ موسموں میں بھی شاخ سے جو
وہ زرد پتا ذرا لرزنے پہ جھڑ نہ جاتا!
نئے زمانے کے طور مجھ کو ہلا ہی دیتے
قدم جو چرخِ کہن پہ ہوتا، اکھڑ نہ جاتا!
کسی بھی جانب سے اک تشفی کا لفظ سنتا
ستم رسیدہ سہی میں طوفاں سے لڑ نہ جاتا!
اگر کبھی ہوتیں ان سے محفل میں چار آنکھیں
جو مست نظروں کا تار تھا دل جکڑ نہ جاتا!
مری وفا میں بساط اتنی امان ہوتی
محبتوں میں نثار ہوتا، اجڑ نہ جاتا!
وہ عشق جو تھا، پہاڑ کیسے اکھڑ نہ جاتا!
وگرنہ کوشش عبث تھی پل میں پچھڑ نہ جاتا!
جڑا رہا تلخ موسموں میں بھی شاخ سے جو
وہ زرد پتا ذرا لرزنے پہ جھڑ نہ جاتا!
نئے زمانے کے طور مجھ کو ہلا ہی دیتے
قدم جو چرخِ کہن پہ ہوتا، اکھڑ نہ جاتا!
کسی بھی جانب سے اک تشفی کا لفظ سنتا
ستم رسیدہ سہی میں طوفاں سے لڑ نہ جاتا!
اگر کبھی ہوتیں ان سے محفل میں چار آنکھیں
جو مست نظروں کا تار تھا دل جکڑ نہ جاتا!
مری وفا میں بساط اتنی امان ہوتی
محبتوں میں نثار ہوتا، اجڑ نہ جاتا!
آخری تدوین: