امان زرگر
محفلین
مطلق نہ رہا سوزاں دل میرا یہ سودائی
اس طور نظر آئی تاثیرِ مسیحائی
اس راہِ عمل میں وہ دو چار قدم تک ہی
بس ساتھ چلا میرے پھر دے گیا تنہائی
رستے پہ ترے بیٹھے سب شاہ و گدا دیکھے
ہر شخص ترا طالب تیرا ہی تمنائی
برسات کی راتوں میں پھر جذبۂ دل تڑپے
پھر ٹوٹے بدن میرا لیں خواہشیں انگڑائی
رکتی ہی نہیں آنکھیں تصویر کی قامت پر
اس طور مصور نے دی حسن کو زیبائی
یہ قلبِ حزیں میرا پہلو میں تڑپ اٹھا
ان شوخ نگاہوں میں ہے عکسِ شناسائی
کب یاد رہی اسودؔ تب صبح ازل ہم کو
دیکھی جو ترے پہلو میں رات کی رعنائی
اسودؔ امان
اس طور نظر آئی تاثیرِ مسیحائی
اس راہِ عمل میں وہ دو چار قدم تک ہی
بس ساتھ چلا میرے پھر دے گیا تنہائی
رستے پہ ترے بیٹھے سب شاہ و گدا دیکھے
ہر شخص ترا طالب تیرا ہی تمنائی
برسات کی راتوں میں پھر جذبۂ دل تڑپے
پھر ٹوٹے بدن میرا لیں خواہشیں انگڑائی
رکتی ہی نہیں آنکھیں تصویر کی قامت پر
اس طور مصور نے دی حسن کو زیبائی
یہ قلبِ حزیں میرا پہلو میں تڑپ اٹھا
ان شوخ نگاہوں میں ہے عکسِ شناسائی
کب یاد رہی اسودؔ تب صبح ازل ہم کو
دیکھی جو ترے پہلو میں رات کی رعنائی
اسودؔ امان
آخری تدوین: