امان زرگر
محفلین
مفارقت میں بھی قربتوں کی مٹھاس ہو کر
یہ درد رہتا ہے زندگی کی اساس ہو کر
سبھی درندہ صفت شناور جو کشت و خوں کے
دیارِ ہستی میں رہتے ہیں خوش لباس ہو کر
اثر سے جس کے وہ دشت میں آسمان اترا
تھا نوکِ مژگاں پہ اشک جاں التماس ہو کر
کبھی تو سورج بھی مطلعِ شب سے آن نکلے
مرے جگر کے دریدہ دامن کی آس ہو کر
چٹکنے والے ہیں غنچۂ گل اے بادِ سحری!
یوں صحنِ گلشن میں مت چلو تم اداس ہو کر
یہ درد رہتا ہے زندگی کی اساس ہو کر
سبھی درندہ صفت شناور جو کشت و خوں کے
دیارِ ہستی میں رہتے ہیں خوش لباس ہو کر
اثر سے جس کے وہ دشت میں آسمان اترا
تھا نوکِ مژگاں پہ اشک جاں التماس ہو کر
کبھی تو سورج بھی مطلعِ شب سے آن نکلے
مرے جگر کے دریدہ دامن کی آس ہو کر
چٹکنے والے ہیں غنچۂ گل اے بادِ سحری!
یوں صحنِ گلشن میں مت چلو تم اداس ہو کر
آخری تدوین: