پہلے چار اشعار کے علاوہ یہ دو اشعار رکھ لو۔ باقی کو ٹاٹا کہہ دیا جائے عنایت اک ستم پرور کی یہ سوزِ دروں میرا
رگوں میں درد بہتا ہے جنوں شامل مرے خوں میں
بدل دے اے تصور اب وفا کی رسمِ فرسودہ
کہاں لیلٰی کی گلیاں ہی رہیں پندارِ مجنوں میں
عجب لذت ملے دل کو شبِ عزلت کے افسوں میں
اتر آئے وہ گل اندام جیسے چشمِ محزوں میں
طلاطم خیز قلزم میں اٹھیں یوں سرخ سی موجیں
اتر آئے جگر کا خون میری چشمِ گلگوں میں
وہ دل کو لوٹنے والا، پری رخ اور ستم پرور
اصولِ حسن سب ہیں کار فرما نقشِ موزوں میں
زمیں کے ریگ زاروں میں مرے ہی دم سے رونق ہے
مرے ہی تذکرے ہیں ہر گھڑی اربابِ گردوں میں
طوالت کی طرف پھیلائے جب فرقت کی شب دامن
اٹھے پھر اک نیا فتنہ مرے احوالِ مفتوں میں
عنایت اک ستم پرور کی یہ سوزِ دروں میرا
رگوں میں درد بہتا ہے جنوں شامل مرے خوں میں
بدل دے اے تصور اب وفا کی رسمِ فرسودہ
کہاں لیلٰی کی گلیاں ہی رہیں پندارِ مجنوں میں