جو کہا تھا، وہی دہرا رہا ہوں،
شاعری کا ایک اصول ہے کہ ہم شعر کی بحر (وزن، لے یا سُر) میں نہیں الجھتے، بلکہ اسے نثر کی طرح سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گرامر کا جتنا اطلاق نثر پر ہوتا ہے، شاعری پر بھی اتنا ہی ہوتا ہے۔ آپ کو چاہئے کہ جو کہنا چاہتے ہیں، وہ پہلے طے کر لیجئے۔ پھر شعر میں کہنے کی کوشش کیجئے۔ اس کے بعد جو کہا اسے دوبارہ نثر میں ڈھال کر دیکھئے ، کیا اس میں کوئی اضافی الفاظ استعمال کر لیے گئے ہیں جن کا استعمال غیر ضروری محسوس ہوتا ہے یا پھر وہ بات کہہ دی گئی جو کہ ممکن ہی نہیں تھی۔ اگر ایسا ہے تو اس میں اصلاح لائی جاسکتی ہے۔
۔۔۔۔
آپ کے اشعار پر میں نے عرض کیا تھا(یہاں نیلے حروف میں کچھ اضافہ کیا ہے، شاید آپ کے کام آئے)
وقتِ رخصت سے ہی بدل دینگے دنیا
دل کی حسرت سے ہی بدل دینگے دنیا
۔۔۔
غور کیا جائے تو دل کی حسرت ایک خواہش کا نام ہے جو دل میں ہی رہ جاتی ہے۔ کسی عمل کا نہیں، کہ اس سے دنیا بدلی جاسکے۔
یہاں حسرت کی جگہ کسی عمل کا ذکر ہوتا جس سے دنیا بدلنا ممکن بھی ہو، تو شاید بات بن بھی جاتی۔
کندوں پر ہم بس جاں یہ دینگے جو اپنی
جب حقیقت سے ہی بدل دینگے دنیا
۔۔۔ کندوں ۔۔۔ کے لفظ سے مراد کیا ہے، اس سے قطع نظر جاں کے بعد "یہ" اضافی لگتا ہے۔ دوسرے مصرعے میں 'جب' سے مراد 'اس وقت' لیا گیا ہے، جسے میں درست نہیں سمجھتا ۔
دوسرا شعر بے ربط ہے۔ دوبارہ کہنے کی کوشش کریں، پھر مل کر غور کرتے ہیں۔
تو بھائی جان اصلاح کی ضرورت ہے مجھے۔
یہاں ایک بات واضح کردوں کہ آپ کے اشعار کے حوالے سے میں اول تو تب تک کوئی اصلاح نہیں دے سکتا جب تک مجھ پر یہ واضح نہ ہو کہ آپ دراصل کہنا کیا چاہتے تھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اصلاح دے بھی دی تو آپ کے کسی کام کی نہیں ہوگی جب تک آپ خود اس عمل کو سمجھ نہ لیں۔