برائے اصلاح: کسی کی چاہ نہ حرفِ دُعا بناتا ہے

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب، دیگر اساتذہ کرام اور احباب سے اصلاح کی گذارش کے ساتھ ایک غزل پیشِ خدمت ہے

نوٹ: کچھ جگہوں پر فعلاتن کو مفعولن میں بدلا گیا ہے ۔ اس بحر میں شاید اجازت ہے

کسی کی چاہ نہ حرفِ دُعا بناتا ہے
مجھ ایسے شخص کو کیونکر خدا بناتا ہے
یا
مجھ ایسے شخص کو پھر کیوں خدا بناتا ہے

وُہ اک ہی گھر میں پیدا تو کرتا ہے بچے
مگر نصیب ان سب کے جدا بناتا ہے

نقاب اوڑھ کے کرتا ہے چوریاں دل کی
وُہی جو خود کو بہت پارسا بناتا ہے

وُہ پہلے کاٹتا ہے مجھ کو سر کے صدقے میں
جلا کے خون مرا پھر دیا بناتا ہے

کرے گا آج بھی انکار مجھ سے ملنے سے
پہ دیکھتے ہیں نئی بات کیا بناتا ہے

ہمیں تو عشق نے برباد کر دیا مقبول
وگرنہ کون یوں خود کو گدا بناتا ہے
 
ذرا اپنے اس شعر کی وضاحت کردیں کہ آپ نے کیا کہا یا کہنا چاہا ہے۔سادہ سے لفظوں میں کسی الجھاؤ کے بغیر جہاں تک ممکن ہو۔

کسی کی چاہ نہ حرفِ دُعا بناتا ہے
مجھ ایسے شخص کو کیونکر خدا بناتا ہے
یا
مجھ ایسے شخص کو پھر کیوں خدا بناتا ہے
 
آخری تدوین:

مقبول

محفلین
ذرا اپنے اس شعر کی وضاحت کردیں کہ آپ نے کیا کہا یا کہنا چاہا ہے۔سادہ سے لفظوں میں کسی الجھاؤ کے بغیر جہاں تک ممکن ہو۔

کسی کی چاہ نہ حرفِ دُعا بناتا ہے
مجھ ایسے شخص کو کیونکر خدا بناتا ہے
یا
مجھ ایسے شخص کو پھر کیوں خدا بناتا ہے
میں سمجھا تھا کہ شاید یہ ایک سادہ سا خیال ہے ۔ معذرت چاہتا ہوں لگتا ہے پیچیدہ ہو گیا ہے۔

خدا نہ تو کسی کے دل میں میری محبت ڈالتا ہے نہ کسی کی دعاؤں میں شامل کرتا ہے تو پھر مجھ ایسے شخص کو پیدا کرتا ہی کیوں ہے
 
کسی کی چاہ نہ حرفِ دُعا بناتا ہے
مجھ ایسے شخص کو کیونکر خدا بناتا ہے
یا
مجھ ایسے شخص کو پھر کیوں خدا بناتا ہے
کسی کی چاہ نہ مجھ کو دُعا بناتا ہے
۔۔۔کیوں آدمی مرے جیسے خدا بناتا ہے
 
آخری تدوین:
نقاب اوڑھ کے کرتا ہے چوریاں دل کی
وُہی جو خود کو بہت پارسا بناتا ہے
نقاب میں جو چراتا ہے دل کوسینوں سے
۔۔۔۔۔۔۔۔اور ا ک جہان کو غم آشنا بناتا ہے
یہاں خود کو پارسابنانے کا تو محل ہی نہیں بتانے کا محل تھا مگر وہ ردیف سے متصادم ہے ردیف’’جو بناتا ہے‘‘، تھی
 
آخری تدوین:
وُہ پہلے کاٹتا ہے مجھ کو سر کے صدقے میں
جلا کے خون مرا پھر دیا بناتا ہے
بندشِ الفاظ میں گڑبڑ کے سبب یہ شعر بھی وضاحت طلب ہے جناب ۔
دوسرے مصرعے کا مماثل شعر:
کرونہ غم کہ ضرورت پڑی تو ہم دیں گے۔۔۔۔لہو کاتیل چراغوں میں روشنی کے لیے۔۔۔۔۔۔(نقاش کاظمی)
 
آخری تدوین:
ایک ممکنہ صورت:
۔۔۔غزل
مجھے طلب نہ کسی کی دعا بناتا ہے
۔۔۔۔۔۔تو میرے جیسے کو پھر کیوں خُدا بناتا ہے
وہ ایک بوند لہو سے بنائے دس جانیں
۔۔۔۔۔۔مگر نصیب سبھی کے جُدا بناتا ہے
نقاب سے جو لٹاتا ہے حسن کے جلوے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حجاب اور اُسے دل کُشا بناتا ہے
کرے گا آج بھی انکار میرے ملنے سے
۔۔۔۔۔۔یہ دیکھنا ہے بہانے وہ کیا بناتا ہے
ہےعشق کا یہ کرشمہ کہ ہوگئے مقؔبول
۔۔۔۔۔۔وگرنہ کون کسے رہنما بناتا ہے
 
آخری تدوین:

مقبول

محفلین
ایک ممکنہ صورت:
۔۔۔غزل
کسی کی چاہ نہ مجھ کو دُعا بناتا ہے
۔۔۔۔۔۔کیوں آدمی مرے جیسے خُدا بناتا ہے
وہ ایک بوند لہو سے بنائے دس جانیں
۔۔۔۔۔۔مگر نصیب سبھی کے جُدا بناتا ہے
نقاب میں جو چراتا ہے دل کو سینوں سے
۔۔۔۔۔۔وہ اِک جہان کو غم آشنا بناتا ہے
کرے گا آج بھی انکار میرے ملنے سے
۔۔۔۔۔۔یہ دیکھنا کہ بہانے وہ کیا بناتا ہے
ہےعشق کا یہ کرشمہ کہ ہوگئے مقؔبول
۔۔۔۔۔۔وگرنہ کون کسے رہنما بناتا ہے
بہت شکریہ، شکیل صاحب۔ آپ کی توجہ، وقت اور تجاویز کے لیے ممنون ہوں۔
سر الف عین ایک نظر ڈال لیں تو پھر سب تجاویز پر ایک ساتھ کام کرتا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
چاہے بحر میں افاعیل بدلنے کی اجازت ہو، مگر روانی تو انہیں مستعمل طریقے سے برتنے پر ہی پیدا ہوتی ہے
مطلع شکیل نے درست کر دیا ہے، ورنہ تمہارے شعر کے مفہوم سے تو لگ رہا تھا کہ تم ہی خدا بن جانے کی بات کر رہے ہو!
وُہ اک ہی گھر میں پیدا تو کرتا ہے بچے
مگر نصیب ان سب کے جدا بناتا ہے
دیکھو یہ شکل بھی روانی میں کس قدر گنجلک ہے۔ شکیل میاں کا مجوزہ مصرع بھی روانی چاہتا ہے، اگرچہ بہتر ہے، دوسرا مصرع تو بلا تردد شکیل کا رکھ لو
نقاب اوڑھ کے کرتا ہے چوریاں دل کی
وُہی جو خود کو بہت پارسا بناتا ہے
شکیل کا مجوزہ شعر تو مفہوم کے اعتبار سے بالکل ہی الگ ہو گیا۔ اصل شعر میں بناتا ہے غلط استعمال ہے، مگر یہ ردیف ہے۔ بہتر ہے کہ اسے دکھاتا ہے کر کے دوسری کسی غزل کے لیے رکھ لو
وُہ پہلے کاٹتا ہے مجھ کو سر کے صدقے میں
جلا کے خون مرا پھر دیا بناتا ہے
شکیل سے متفق
کرے گا آج بھی انکار مجھ سے ملنے سے
پہ دیکھتے ہیں نئی بات کیا بناتا ہے
شکیل کی تجویز اچھی ہے
ہمیں تو عشق نے برباد کر دیا مقبول
وگرنہ کون یوں خود کو گدا بناتا ہے
شکیل نے تو مفہوم ہی بدل دیا!
وگرنہ یوں کوئی خود کو گدا....
بہتر مصرع ہو گا شاید
 
استادِ محترم کے اِصلاحی نِکات پڑھنے کے بعد غزل کی ممکنہ صورت:

۔۔۔۔۔غزل
مجھے طلب نہ کسی کی دعا بناتا ہے
۔۔۔۔۔۔تو میرے جیسے کو پھر کیوں خُدا بناتا ہے
وہ ایک حکم سے پیدا کرے کئی جانیں
۔۔۔۔۔۔مگر نصیب سبھی کے جُدا بناتا ہے
نقاب میں بھی چراتا ہے دل مگر اپنی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ پارسائی کی باتیں بھی کیا بناتا ہے
کرے گا آج بھی انکار میرے ملنے سے
۔۔۔۔۔۔یہ دیکھنا ہے بہانے وہ کیا بناتا ہے
ہمیں تو عشق نے برباد کردیا مقؔبول
۔۔۔۔۔۔وگرنہ یوں کوئی خود کو گدا بناتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔غزل میں اور زیادہ دلکشی اور اثر پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے
 
آخری تدوین:

مقبول

محفلین
نثر میں اِس شعر کا مطلب ضروربتائیں کہ کیا کہنا چاہتے تھے ، انتظار ہے۔
پہلا مصرعہ صحیح مفہوم ادا نہیں کر رہا ۔ کہنا چاہا تھا کہ وہ پہلے اپنے سر کا صدقہ مجھے قتل کر کے دیتا ہے اور پھر اس خون کو جلا کر دیا بناتا ہے
 

مقبول

محفلین
سر الف عین
شکیل احمد خان23
پچھلے دو تین مہینے، شاعری کی طرف مائل نہ ہونے کی وجہ سے اس غزل پر مزید کام نہ کر سکا ۔ اب پچھلے کچھ دنوں سے کچھ ہلچل ہوئی تو سوچا اس غزل کا بھی کچھ کر لیا جائے۔ استادِ محترم آپ کی اور شکیل صاحب کی تجاویز کی روشنی میں کچھ درستگی کے ساتھ غزل دوبارہ آپ کی خدمت میں اصلاح کے لیے پیش کر رہا ہوں ۔

اگر طلب نہ کسی کی دُعا بناتا ہے
تو میرے جیسے کو پھر کیوں خدا بناتا ہے

وُہ ایک گھر میں ہے پیدا تو کرتا لوگوں کو
مگر نصیب سبھی کے جدا بناتا ہے

کوئی تو راہ کے جگنو بھی مار دیتا ہے
یا (تقابلِ ردیفیں دور کرنے کے لیے)
ہے مار ڈالتا کوئی تو رہ کے جگنو بھی
جلا کے خوں کوئی اپنا، دیا بناتا ہے

نقاب اوڑھ کے کرتا ہے اک تو دل چوری
وُہ پارسائی کی باتیں بھی پھر بناتا ہے

کرے گا آج بھی انکار مجھ سے ملنے سے
پہ دیکھتے ہیں بہانے وُہ کیا بناتا ہے

ہمیں تو عشق نے برباد کر دیا مقبول
وگرنہ یوں کوئی خود کو گدا بناتا ہے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
سر الف عین
شکیل احمد خان23
پچھلے دو تین مہینے، شاعری کی طرف مائل نہ ہونے کی وجہ سے اس غزل پر مزید کام نہ کر سکا ۔ اب پچھلے کچھ دنوں سے کچھ ہلچل ہوئی تو سوچا اس غزل کا بھی کچھ کر لیا جائے۔ استادِ محترم آپ کی اور شکیل صاحب کی تجاویز کی روشنی میں کچھ درستگی کے ساتھ غزل دوبارہ آپ کی خدمت میں اصلاح کے لیے پیش کر رہا ہوں ۔

اگر طلب نہ کسی کی دُعا بناتا ہے
تو میرے جیسے کو پھر کیوں خدا بناتا ہے
شکیل کا مجوزہ مصرع بہتر تھا
مجھ ایسا آدمی پھر کیوں...
وُہ ایک گھر میں ہے پیدا تو کرتا لوگوں کو
مگر نصیب سبھی کے جدا بناتا ہے
پہلا مصرع رواں نہیں
کوئی تو راہ کے جگنو بھی مار دیتا ہے
یا (تقابلِ ردیفیں دور کرنے کے لیے)
ہے مار ڈالتا کوئی تو رہ کے جگنو بھی
جلا کے خوں کوئی اپنا، دیا بناتا ہے
پہلے متبادل میں ہی مار ڈالتا ہےسے بدل دو، تقابل مزید ہلکا ہو جائے گا
نقاب اوڑھ کے کرتا ہے اک تو دل چوری
وُہ پارسائی کی باتیں بھی پھر بناتا ہے
اک تو... اچھا نہیں لگتا
دلوں کی چوری بھی کرتا ہے اوڑھ کر وہ نقاب
کرے گا آج بھی انکار مجھ سے ملنے سے
پہ دیکھتے ہیں بہانے وُہ کیا بناتا ہے
درست
ہمیں تو عشق نے برباد کر دیا مقبول
وگرنہ یوں کوئی خود کو گدا بناتا ہے
دوسرے مصرعے کے اختتام پر سوالیہ نشان دو تو واضح ہو جائے گا
 

مقبول

محفلین
سر الف عین ، بہت شکریہ
کچھ تبدیلیاں ویسے ہی کر دی ہیں جیسا آپ نے فرمایا تھا۔ کچھ اشعار نکال کر متبادل ڈال دیئے ہیں۔ مقطع بھی بدل دیا ہے

اگر طلب نہ کسی کی دُعا بناتا ہے
مجھ ایسا آدمی پھر کیوں خدا بناتا ہے

کوئی تو راہ کے جگنو بھی مار ڈالتاہے
جلا کے خوں کوئی اپنا، دیا بناتا ہے

میں اپنے آپ نہیں ہر بھنور سے بچ جاتا
خدا کوئی نہ کوئی راستہ بناتا ہے

کرے گا آج بھی انکار مجھ سے ملنے سے
پہ دیکھتے ہیں بہانے وُہ کیا بناتا ہے

ہمیں تو عشق نے برباد کر دیا ورنہ
کوئی بھی یوں کہاں خود کو گدا بناتا ہے

لگا کے ہر جگہ مقبول اس کی تصویریں
تُو سارے شہر کو کیوں بت کدہ بناتا ہے
 
اگر طلب نہ کسی کی دُعا بناتا ہے
مجھ ایسا آدمی پھر کیوں خدا بناتا ہے
نہ وہ دُعا ۔نہ کسی کی طلب۔۔۔ بناتا ہے
تو
میرے جیسے ہی پھر کیوں خُدا بناتا ہے

کوئی تو راہ کے جگنو بھی مار ڈالتاہے۔۔غزل کی ردیف کے متقابل ہونیکا عیب
جلا کے خوں کوئی اپنا، دیا بناتا ہے۔۔۔دونوں مصرعوں میں ربط کی کمی اور مفہوم میں ابہام ہے

میں اپنے آپ نہیں ہر بھنور سے بچ جاتا
خدا کوئی نہ کوئی راستہ بناتا ہے۔۔۔یہ شعراچھا ہے
کرے گا آج بھی انکار مجھ سے ملنے سے
پہ دیکھتے ہیں بہانے وُہ کیا بناتا ہے۔۔دوسرے مصرعے میں ’’مگر‘‘ کی کمی ہے

ہمیں تو عشق نے برباد کر دیا ورنہ
کوئی بھی یوں کہاں خود کو گدا بناتا ہے۔۔مصرعے میں الفاظ کی ترتیب بول چال کے مطابق کرنے گنجائش موجود
ہمیں تو عشق نے یہ دن دکھائے ہیں ورنہ
یوں کوئی خود کو بھلا کب
۔۔۔ گدا بناتا ہے
لگا کے ہر جگہ مقبول اس کی تصویریں
تُو سارے شہر کو کیوں بت کدہ بناتا ہے۔۔۔بہت خوب!
 
آخری تدوین:
Top