مقبول
محفلین
محترم الف عین صاحب، دیگر اساتذہ کرام اور احباب سے اصلاح کی گذارش کے ساتھ ایک غزل پیشِ خدمت ہے
نوٹ: کچھ جگہوں پر فعلاتن کو مفعولن میں بدلا گیا ہے ۔ اس بحر میں شاید اجازت ہے
کسی کی چاہ نہ حرفِ دُعا بناتا ہے
مجھ ایسے شخص کو کیونکر خدا بناتا ہے
یا
مجھ ایسے شخص کو پھر کیوں خدا بناتا ہے
وُہ اک ہی گھر میں پیدا تو کرتا ہے بچے
مگر نصیب ان سب کے جدا بناتا ہے
نقاب اوڑھ کے کرتا ہے چوریاں دل کی
وُہی جو خود کو بہت پارسا بناتا ہے
وُہ پہلے کاٹتا ہے مجھ کو سر کے صدقے میں
جلا کے خون مرا پھر دیا بناتا ہے
کرے گا آج بھی انکار مجھ سے ملنے سے
پہ دیکھتے ہیں نئی بات کیا بناتا ہے
ہمیں تو عشق نے برباد کر دیا مقبول
وگرنہ کون یوں خود کو گدا بناتا ہے
نوٹ: کچھ جگہوں پر فعلاتن کو مفعولن میں بدلا گیا ہے ۔ اس بحر میں شاید اجازت ہے
کسی کی چاہ نہ حرفِ دُعا بناتا ہے
مجھ ایسے شخص کو کیونکر خدا بناتا ہے
یا
مجھ ایسے شخص کو پھر کیوں خدا بناتا ہے
وُہ اک ہی گھر میں پیدا تو کرتا ہے بچے
مگر نصیب ان سب کے جدا بناتا ہے
نقاب اوڑھ کے کرتا ہے چوریاں دل کی
وُہی جو خود کو بہت پارسا بناتا ہے
وُہ پہلے کاٹتا ہے مجھ کو سر کے صدقے میں
جلا کے خون مرا پھر دیا بناتا ہے
کرے گا آج بھی انکار مجھ سے ملنے سے
پہ دیکھتے ہیں نئی بات کیا بناتا ہے
ہمیں تو عشق نے برباد کر دیا مقبول
وگرنہ کون یوں خود کو گدا بناتا ہے