برائے اصلاح: کسی کی چاہ نہ حرفِ دُعا بناتا ہے

مقبول

محفلین
سر الف عین
شکیل صاحب نے کچھ نقائص کی نشاندہی کی تو پھر کچھ تبدیلیاں کی ہیں ۔ اب دیکھیے
مطلع میں آدمی والا ہی دوسرا مصرع رکھ رہا ہوں تاکہ یہ گمان نہ ہو کہ میں نعوذ باللّہ خودُ کو خدا بنا رہا ہوں جیسا کہ آپ کو پہلی دفعہ محسوس ہوا تھا

نہ ہی طلب نہ کسی کی دُعا بناتا ہے
تو مجھ سے آدمی پھر کیوں خدا بناتا ہے

کوئی تو راہ کے جگنو بھی مار ڈالتے ہیں
جلا کے خوں کوئی اپنا، دیا بناتا ہے

میں اپنے آپ نہیں ہر بھنور سے بچ جاتا
خدا کوئی نہ کوئی راستہ بناتا ہے

ملے گا آج بھی مجھ سے نہیں ، یہ طے ہے مگر
وُہ دیکھتے ہیں نیا عذر کیا بناتا ہے

یہ عشق ہی تو ہے جس نے کیا ہمیں برباد
یہ عشق ہی ہے جو شہ سے گدا بناتا ہے

لگا کے ہر جگہ مقبول اس کی تصویریں
تُو سارے شہر کو کیوں بت کدہ بناتا ہے
 
Top