برائے اصلاح-کیا ہے جھپٹنا، کیسا پلٹنا، بھو ل گئے

نمرہ

محفلین
کیا ہے جھپٹنا، کیسا پلٹنا، بھو ل گئے
سوئے اب کے ایسے، اٹھنا بھول گئے
دامن بھی گلشن کے ساتھ ہی راکھ ہوا
آگ لگا کے پیچھے ہٹنا بھول گئے
لے کے جھنڈا ، اونچی شان سے نکلے جو
ان کے سر میدان میں کٹنا بھول گئے
اب کے جو لکھا تو برقی کاغذ پر
دھول ہوئے ہم ، لفظ وہ مٹنا بھول گئے
رہزن دستک دیتے ہیں دروازے پر
بستی والے راہ میں لٹنا بھول گئے
باقی ساری عمر طمانچے کھاتے رہے
بچپن میں استاد سے پٹنا بھول گئے
پرچا دینے پہنچے، دیکھ زمانہ، پر
سب اسباق ضروری رٹنا بھول گئے
جل اٹھتے تھےانار سبھی تو ہاتھوں میں
اونچائ پر کیوں وہ پھٹنا بھول گئے؟
رکھتے تھے ہم انسانوں کو خانوں میں
پڑ جائے گا خود کو بٹنا ، بھول گئے
سچائ کی بات جو اکثر کرتے تھے
سچی بات پہ وہ بھی ڈٹنا بھول گئے
خود سے وعدے کر کے نکلے تھے گھر سے
تیری محفل سے پھر اٹھنا بھول گئے
 

احمد بلال

محفلین
مجھے تو یہ فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فع معلوم ہو رہی ہے۔ اسی پر ساری غزل آ رہی ہے۔ یہ میر کی بحر کی چھوٹی بہن معلوم ہوتی ہے۔ نمرہ آپ بھی بتا دیں کہ آپ نے کس بحر میں لکھی ہے۔ الف عین اور محمد وارث سے بھی اس بارے میں کچھ ارشاد فرمانے کی درخواست ہے
 
چلیں دیکھیں کیا فرماتے ہیں اس مسئلے کے بارے میں۔
باقی وزن تو درست ہے لیکن اس مصرعے میں وزن کی غلطی ہے۔ سچائی کا تلفظ صحیح نہیں کیا ۔ چ مشدد نہیں ہے یہاں۔ "جو کیا کرتے تھے سچی باتیں اکثر " کر دیں تو وزن درست ہو جائے گا۔

سچائی کے مشدد ہونے میں کیا خامی ہے؟
 
کس نے استعمال کیا ہے؟

sachai.jpg


یہ فیروز الغات سے ٹکرا نکال کر لگایا ہے۔
اگر میں غلط سمجھا ہوں تو اصلاح کا طالب ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
بحث یہاں سچائی اور سچ چائی کی ہے۔ اردو میں تو مشدد ہی درست مانا جاتا ہے، لیکن ہندی میں درست لفظ بغیر تشدید کا ہے، اور اس طرح کچھ ہندی جاننے والے اسی طرح باندھتے بھی ہیں۔ لیکن یہاں نمرہ نے تو مشدد ہی استعمال کیا ہے جو بالکل درست ہے۔
بحر کے بارے میں احمد بلال کا خیال درست ہے، یہ غالباً متقارب کی ہی ایک شکل ہے۔ساڑھے پانچ رکنی فعلن، یا ایک فعلن کے جوڑے کی جگہ فعل فعولن بھی آ سکتا ہے۔
غزل اچھی ضرور ہے، لیکن قوافی غلط ہیں۔ ان میں اعراب کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے خاص کر جب حرف روی میں ہوں۔ قافئے یا تو مفتوح ہوں، ہَٹنا، پلَٹنا، جھپَٹنا درست ہیں، لیکن ان میں لُٹنا اور پِٹنا نہیں آ سکتے۔ اور مطلع میں اٹھنا تو بالکل غلط ہی ہے۔ اس لئے فی الحال کاپی نہیں کر رہا ہوں، نمرہ خود ہی قوافی درست کر دیں تو اصلاح کرنے کی سوچوں
 

احمد بلال

محفلین
شکریہ جناب الف عین صاحب کا کہ اس مسئلہ کو حل کر دیا ہے۔ میں کل آج ساری رات یہ تلاش کرتا رہا کہ اساتذہ نے اسے کیسے استعمال کیا ہے۔ لیکن نہیں ملا۔ میرے ذہن میں ایک شعر تھا " سچائی چھپ نھیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے" لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ کس کا ہے۔ بہر حال اب واضح ہو گیا ہے۔ ویسے مزمل شیخ بسمل بھائی کسر زیر کو کہتے ہیں
 
شکریہ جناب الف عین صاحب کا کہ اس مسئلہ کو حل کر دیا ہے۔ میں کل آج ساری رات یہ تلاش کرتا رہا کہ اساتذہ نے اسے کیسے استعمال کیا ہے۔ لیکن نہیں ملا۔ میرے ذہن میں ایک شعر تھا " سچائی چھپ نھیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے" لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ کس کا ہے۔ بہر حال اب واضح ہو گیا ہے۔ ویسے مزمل شیخ بسمل بھائی کسر زیر کو کہتے ہیں

شکریہ بھائی آپ نے نشاندہی کردی.میں نے کسی اور لفظ کے کے خیال سے کسرہ لکھ دیا. دا اصل لکھنا ہی کچھ اور تھا.
خیر شکریہ.
 

نمرہ

محفلین
مجھے تو یہ فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فع معلوم ہو رہی ہے۔ اسی پر ساری غزل آ رہی ہے۔ یہ میر کی بحر کی چھوٹی بہن معلوم ہوتی ہے۔ نمرہ آپ بھی بتا دیں کہ آپ نے کس بحر میں لکھی ہے۔ الف عین اور محمد وارث سے بھی اس بارے میں کچھ ارشاد فرمانے کی درخواست ہے
جی ہاں ، میر کی بحر ہندی کی ہی ایک شکل استعمال کی ہے۔
 

نمرہ

محفلین
غزل اچھی ضرور ہے، لیکن قوافی غلط ہیں۔ ان میں اعراب کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے خاص کر جب حرف روی میں ہوں۔ قافئے یا تو مفتوح ہوں، ہَٹنا، پلَٹنا، جھپَٹنا درست ہیں، لیکن ان میں لُٹنا اور پِٹنا نہیں آ سکتے۔ اور مطلع میں اٹھنا تو بالکل غلط ہی ہے۔ اس لئے فی الحال کاپی نہیں کر رہا ہوں، نمرہ خود ہی قوافی درست کر دیں تو اصلاح کرنے کی سوچوں
کیا یہاں مطلع میں پلٹنا اور اٹھنا آنے کی وجہ سے 'ن' کو حرف روی مانا جا سکتا ہے؟
 

نمرہ

محفلین
شکریہ جناب الف عین صاحب کا کہ اس مسئلہ کو حل کر دیا ہے۔ میں کل آج ساری رات یہ تلاش کرتا رہا کہ اساتذہ نے اسے کیسے استعمال کیا ہے۔ لیکن نہیں ملا۔ میرے ذہن میں ایک شعر تھا " سچائی چھپ نھیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے" لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ کس کا ہے۔
عبیداللہ علیم کا ایک شعر ہے،
میں کھلی ہوئی اک سچائی مجھے جاننے والے جانتے ہیں
میں نے کن لوگوں سے نفرت کی اور کن لوگوں کو پیار دیا
 
کیا یہاں مطلع میں پلٹنا اور اٹھنا آنے کی وجہ سے 'ن' کو حرف روی مانا جا سکتا ہے؟

میرے علم کے مطابق روی اگر ن کو مانا جائے تو آپ کے قافیہ کا سارا دار و مدار حرف روی پے ہی رہ جائے گا. ایسا قافیہ مجرد کہلاتا ہے.
میرے خیال میں یہ جائز ہے.
باقی دیکھیں کیا فرماتے ہیں استاد جی الف عین
 

الف عین

لائبریرین
میں بھی بقول کسے اپنے باپ کا ہی بیٹا ہوں۔ والد محترم مجرد قوافی کو قوافی نہیں مانتے تھے۔ اس کا علم ہی مجھے اس وقت ہوا تھا جب بشیر بدر نے یہ مشہور غزل کہی تھی
وہ تو کہئے کہ ان کو ہنسی آ گئی، بچ گئے آج ہم ڈوبتے ڈوبتے
پوری غزل میں محض ’تے‘ حرف روی ہے، جب کہ قوافی ہیں، گھومتے گھومتے، سوچتے سوچتے، دیکھتے دیکھتے
یہاں نمرہ کی غزل کے سلسلے میں صرف الف حرف روی مانیں تو مجرد قافیہ کہا جا سکتا ہے۔ ’ن‘ سے کس طرح، یہ مجھ ناقص العقل کی سمجھ میں نہیں آیا۔
 

احمد بلال

محفلین
میں بھی بقول کسے اپنے باپ کا ہی بیٹا ہوں۔ والد محترم مجرد قوافی کو قوافی نہیں مانتے تھے۔ اس کا علم ہی مجھے اس وقت ہوا تھا جب بشیر بدر نے یہ مشہور غزل کہی تھی
وہ تو کہئے کہ ان کو ہنسی آ گئی، بچ گئے آج ہم ڈوبتے ڈوبتے
پوری غزل میں محض ’تے‘ حرف روی ہے، جب کہ قوافی ہیں، گھومتے گھومتے، سوچتے سوچتے، دیکھتے دیکھتے
یہاں نمرہ کی غزل کے سلسلے میں صرف الف حرف روی مانیں تو مجرد قافیہ کہا جا سکتا ہے۔ ’ن‘ سے کس طرح، یہ مجھ ناقص العقل کی سمجھ میں نہیں آیا۔
واہ۔ کمال ہے۔ عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں
 

نمرہ

محفلین
قافیے ٹھیک کرنے کی کوشش کی ہے، اب دیکھئے۔


دامن بھی گلشن کے ساتھ ہی راکھ ہوا
آگ لگا کے پیچھے ہٹنا بھول گئے
لے کے جھنڈا ، اونچی شان سے نکلے جو
ان کے سر میدان میں کٹنا بھول گئے
پرچا دینے پہنچے، دیکھ زمانہ، پر
سب اسباق ضروری رٹنا بھول گئے
جل اٹھتے تھے انار سبھی تو ہاتھوں میں
اونچائ پر کیوں وہ پھٹنا بھول گئے؟
باقی ساری عمر پٹے وہ دنیا سے
جن کو سب استاد ڈپٹنا بھول گئے
اب کے جو لکھا تو برقی کاغذ پر
دھول ہوئے ہم ، نقش وہ ہٹنا بھول گئے
رکھتے تھے ہم انسانوں کو خانوں میں
پڑ جائے گا خود کو بٹنا ، بھول گئے
سچائ کی بات جو اکثر کرتے تھے
سچی بات پہ وہ بھی ڈٹنا بھول گئے
سوچتے ہیں ، اب صبر کریں تاریکی پر
غم کے بادل اب کے چھٹنا بھول گئے
اور سبھی دشمن تو زیر کئے ہم نے
اک غلطی کی ، خود سے نپٹنا بھول گئے
آس نراس میں عمر بتائ یاروں نے
شب کے اندھیرے تھے کہ سمٹنا بھول گئے
خود سے وعدے کر کے نکلے تھے گھر سے
پہنچے تیرے در پہ، پلٹنا بھول گئے
 
Top