سچائی کے متعلق یہ عرض کردوں کہ سبھی دوست اپنی اپنی جگہ درست فرما رہے ہیں، یہ لفظ ان الفاظ کی قبیل میں سے ہے جو مشدد اور غیر مشدد دونوں طرح سے استعمال ہوتے ہیں، جیسے امید، لکھا، لکھی، بچہ وغیرہ۔ مثالیں ڈھونڈنے سے مل جائیں گی فوری طور پر دو مصرعے یاد آئے ہیں
غالب، کوئی امّید بر نہیں آتی۔ امید تشدید کے ساتھ بندھا ہے۔
فیض، تری امید ترا انتظار جب سے ہے، امید بغیر تشدید کے بندھا ہے۔
اسی سے ایک اور بات یاد آ گئی کہ فیض کی یہ غزل استاد نصرت فتح علی خان قوال مرحوم نے گائی ہے اور امید کا غلط تلفظ کر کے اسے تشدید کے ساتھ گایا ہے، ظاہر ہے ان کو کسی نے بتایا نہیں ہوگا۔ اُن سے پہلے یہی غزل استاد امانت علی خان مرحوم پٹیالہ گھرانہ نے گائی تھی اور امید کو صحیح یعنی بغیر تشدید کے گایا ہے، یقیناً کسی نے بتایا ہوگا