عاطف ملک
محفلین
استادِ محترم الف عین ،دیگر اساتذہ اور محفلین کی خدمت میں اصلاح و تنقید کیلیے پیش ہے:
ہائے! کیا رنگ تھے ستمگر کے
خوئےِ عقرب تھی، طور اژدر کے
عینِ فطرت تھا آتشِ سیال
اور بدن پر غلاف مرمر کے
مجھ کو نہلا گئے لہو میں مرے
وہ جو بھیدی تھے میرے ہی گھر کے
پشت سے میری پونچھ لو، یارو!
اشکِ پُر خون چشمِ خنجر کے
موجِ وحشت کی رہ میں آن پڑا
ہائے پھوٹے نصیب پتھر کے
بن گیا ہوں میں تیرا آئینہ
دیکھ لے اب تو اک نظر بھر کے
چشمِ پر شوق وا دمِ آخر
کون جانے حجاب کب سرکے
قلبِ بسمل کے خوں چکاں ریشے
منتظر اب بھی دیدِ نشتر کے
داغ جن کے ہیں قلبِ عاطف پر
سنگ ہیں وہ جناب کے در کے
خوئےِ عقرب تھی، طور اژدر کے
عینِ فطرت تھا آتشِ سیال
اور بدن پر غلاف مرمر کے
مجھ کو نہلا گئے لہو میں مرے
وہ جو بھیدی تھے میرے ہی گھر کے
پشت سے میری پونچھ لو، یارو!
اشکِ پُر خون چشمِ خنجر کے
موجِ وحشت کی رہ میں آن پڑا
ہائے پھوٹے نصیب پتھر کے
بن گیا ہوں میں تیرا آئینہ
دیکھ لے اب تو اک نظر بھر کے
چشمِ پر شوق وا دمِ آخر
کون جانے حجاب کب سرکے
قلبِ بسمل کے خوں چکاں ریشے
منتظر اب بھی دیدِ نشتر کے
داغ جن کے ہیں قلبِ عاطف پر
سنگ ہیں وہ جناب کے در کے