برائے اصلاح: یہ نہیں، کوئی بھی خودسر نہیں دیکھا ہم نے

شاہد شاہنواز

لائبریرین
برائے اصلاح، بخدمت
الف عین
ارشد رشید
محمد احسن سمیع راحلؔ
اور دیگر دوست احباب ۔۔۔
ہوسکتا ہے ایک آدھ شعر کی تقطیع کا مسئلہ ہو، اس پر بھی ایک نظر۔

یہ نہیں ،کوئی بھی خود سر نہیں دیکھا ہم نے
ہاں، مگر تیرے برابر نہیں دیکھا ہم نے

جان لی اس نے کچھ ایسے کہ پتہ تک نہ چلا
یار کے ہاتھ میں خنجر نہیں دیکھا ہم نے

ہوئے زخمی بھی مگر آنکھ نہ منزل سے ہٹی
راہ میں ایک بھی پتھر نہیں دیکھا ہم نے

ایک دنیا ہے جو مے خانے میں گر پڑتی ہے
ایک ہم ہیں، کبھی ساغر نہیں دیکھا ہم نے

ان کو ہنستے ہوئے دیکھا تھا، مگر پھر اس سے
خوبصورت کوئی منظر نہیں دیکھا ہم نے

ان کو دیکھا ہے تو دیکھا ہے بھلا کر دنیا
خود کو دیکھا بھی تو اکثر نہیں دیکھا ہم نے

تم سے بہتر بھی زمانے میں کوئی لگتا ہے؟
آسماں سے کبھی اوپر نہیں دیکھا ہم نے

کس قدر ہم نے مکاں دیکھے، مکیں بھی دیکھے
کتنی مدت سے کوئی گھر نہیں دیکھا ہم نے

جتنا ممکن ہوا، انصاف کیا ہے سب سے
کوئی کمتر کوئی بہتر نہیں دیکھا ہم نے
 

ارشد رشید

محفلین
برائے اصلاح، بخدمت
الف عین
ارشد رشید
محمد احسن سمیع راحلؔ
اور دیگر دوست احباب ۔۔۔
ہوسکتا ہے ایک آدھ شعر کی تقطیع کا مسئلہ ہو، اس پر بھی ایک نظر۔

یہ نہیں ،کوئی بھی خود سر نہیں دیکھا ہم نے
ہاں، مگر تیرے برابر نہیں دیکھا ہم نے

جان لی اس نے کچھ ایسے کہ پتہ تک نہ چلا
یار کے ہاتھ میں خنجر نہیں دیکھا ہم نے

ہوئے زخمی بھی مگر آنکھ نہ منزل سے ہٹی
راہ میں ایک بھی پتھر نہیں دیکھا ہم نے

ایک دنیا ہے جو مے خانے میں گر پڑتی ہے
ایک ہم ہیں، کبھی ساغر نہیں دیکھا ہم نے

ان کو ہنستے ہوئے دیکھا تھا، مگر پھر اس سے
خوبصورت کوئی منظر نہیں دیکھا ہم نے

ان کو دیکھا ہے تو دیکھا ہے بھلا کر دنیا
خود کو دیکھا بھی تو اکثر نہیں دیکھا ہم نے

تم سے بہتر بھی زمانے میں کوئی لگتا ہے؟
آسماں سے کبھی اوپر نہیں دیکھا ہم نے

کس قدر ہم نے مکاں دیکھے، مکیں بھی دیکھے
کتنی مدت سے کوئی گھر نہیں دیکھا ہم نے

جتنا ممکن ہوا، انصاف کیا ہے سب سے
کوئی کمتر کوئی بہتر نہیں دیکھا ہم نے
یہ نہیں ،کوئی بھی خود سر نہیں دیکھا ہم نے
ہاں، مگر تیرے برابر نہیں دیکھا ہم نے
== "بھی" کا محل نہیں ہے - "کوئ بھی" کا مطلب ہوتا ہے جب آپ کو چیزوں کی تعداد وغیرہ معلوم ہو مگر ان سے کوئی بھی وہ نہ ہو جو آپ چاہ رہے ہوں - آپ اصل میں کہنا چاہ رہے ہیں "یہ نہیں ہے کوئ خود سر نہیں دیکھا ہم نے "

جان لی اس نے کچھ ایسے کہ پتہ تک نہ چلا
یار کے ہاتھ میں خنجر نہیں دیکھا ہم نے
== یہ میرا ذاتی خیال ہے - یہاں "یار" پہلے اور "اُس" دوسرے مصرعے میں ہونا چاہیئے تب ربط واضح ہوگا
جان لی یار نے ایسے کہ پتہ تک نہ چلا
اس کے ہاتھوں میں بھی خنجر نہیں دیکھا ہم نے

ہوئے زخمی بھی مگر آنکھ نہ منزل سے ہٹی
راہ میں ایک بھی پتھر نہیں دیکھا ہم نے
== مرے نزدیک یہ شعر عجز بیانی کا شکار ہے - زخمی ہونے کا آنکھ کے منزل سے ہٹنے کا کیا تعلق ہوا؟ اور پھر راہ کے پتھر سے کیا مراد ہے ؟ اگر آپ یہ کہہ رہے ہیں آپ نے راہ میں آنے والے پتھروں کو نہیں دیکھا اور ان سے زخمی بھی ہوئے مگر منزل سے نگاہ نہ ہٹی تو یہ بات اس طرح نہیں کہے جائیگی - اور یہ بھی کہ پھر آپ کو" ایک بھی پتھر" نہیں کہنا ہوگا بلکہ "کوئی بھی پتھر" کہنا ہوگا -
ایک دنیا ہے جو مے خانے میں گر پڑتی ہے
ایک ہم ہیں، کبھی ساغر نہیں دیکھا ہم نے
== گر پڑنے کی اصطلاح ان معنوں میں نہیں استعمال ہوتی ہے - مے خانے میں گر پڑتئ ہے کا مطلب ہوا مے خانے میں نشے سے گر پڑتے ہیں تو اسکا دوسرے مصرعے سے تعلق بنائیں - آپ شاید کہنا چاہ رہے ہیں کہ ایک دنیا ہے جو مے خانے پہ گری جاتئ ہے (بمعنی مری جاتی ہے) اور آپ نے کبھی ساغر تک نہیں دیکھا تو یہ خیال اس طرح ادا نہیں ہوگا -

ان کو ہنستے ہوئے دیکھا تھا، مگر پھر اس سے
خوبصورت کوئی منظر نہیں دیکھا ہم نے
== یہاں بھی مگر کا محل نہیں ہے - مگر جب لکھتے ہیں تو پہلی بات کی نفی ہوتی ہے جیسے ہم اس کے گھر جائیں تو سہی مگر وہ ملتا ہی نہیں ہے - آپ کا مگر ایک ہی بات کے لیئے استعمال ہورہا ہے لہذٰا غلط ہے -

ان کو دیکھا ہے تو دیکھا ہے بھلا کر دنیا
خود کو دیکھا بھی تو اکثر نہیں دیکھا ہم نے
== مرے نزدیک اس میں بہتری لانی چاہیئے -

تم سے بہتر بھی زمانے میں کوئی لگتا ہے؟
آسماں سے کبھی اوپر نہیں دیکھا ہم نے
== یہاں بھی واضح نہیں ہے کہ آسمان سے اوپر سے آپ کی کیا مراد ہے -

کس قدر ہم نے مکاں دیکھے، مکیں بھی دیکھے
کتنی مدت سے کوئی گھر نہیں دیکھا ہم نے
== کس قدر ان چیزوں کے لیئے استعمال ہوتا ہے جن کا شمار اعداد سے نہیں ہوتا- جیسے کس قدر غم
کس قدرمشکل- آپ کو یہاں" کتنے" کا لفظ استعمال کرنا ہوگا کہ کتنے ہی مکان ہم نے دیکھے ہیں -
مگر دوسری بات یہ کہ پھر مکیں ہٹایئے پہلے مصرعے سے اس کا مکان اور گھر کے بیچ میں موازنہ نہیں بنے گا-
جتنا ممکن ہوا، انصاف کیا ہے سب سے
کوئی کمتر کوئی بہتر نہیں دیکھا ہم نے
== کمتر کے ساتھ افضل قسم کا لفظ آئیگا بہتر نہیں چلے گا - آپ کو کہنا ہے کوئ افضل کوئ کم تر نہیں دیکھا ہم نے - یا پھر برتر کرنا پڑے گا-
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
یہ نہیں ہے کوئی خود سر نہیں دیکھا ہم نے
ہاں، مگر تیرے برابر نہیں دیکھا ہم نے
۔۔۔ بہتر ہے ۔۔۔
جان لی یار نے ایسے کہ پتہ تک نہ چلا
اس کے ہاتھوں میں بھی خنجر نہیں دیکھا ہم نے

۔۔۔ دوسرے مصرعے میں ۔۔۔ بھی ۔۔۔ زائد لگ رہا ہے ۔۔۔ اس پر بھی اعتراض آئے شاید۔۔۔ میرا ذاتی اعتراض اس پر کچھ نہیں۔۔۔
ہوئے زخمی بھی مگر آنکھ نہ منزل سے ہٹی
راہ میں کوئی بھی پتھر نہیں دیکھا ہم نے
۔۔ اگر یہ اس طرح درست ہے، تو بہتر ۔۔۔

ایک دنیا ہے جو مے خانے میں گر پڑتی ہے
ایک ہم ہیں، کبھی ساغر نہیں دیکھا ہم نے
ان کو ہنستے ہوئے دیکھا تھا، مگر پھر اس سے
خوبصورت کوئی منظر نہیں دیکھا ہم نے
دونوں اشعار فی الحال حذف ۔۔۔

ان کو دیکھا ہے تو دیکھا ہے بھلا کر دنیا
خود کو دیکھا بھی تو اکثر نہیں دیکھا ہم نے
۔۔۔۔ بہتری کی گنجائش پر کام ہوسکتا ہے ۔۔۔ کچھ وقت درکار ہے۔

تم سے بہتر بھی زمانے میں کوئی لگتا ہے؟
آسماں سے کبھی اوپر نہیں دیکھا ہم نے
کس قدر ہم نے مکاں دیکھے، مکیں بھی دیکھے
کتنی مدت سے کوئی گھر نہیں دیکھا ہم نے
یہ دونوں بھی فی الحال حذف۔۔۔

جتنا ممکن ہوا، انصاف کیا ہے سب سے
کوئی کمتر کوئی برترنہیں دیکھا ہم نے
۔۔۔ یوں بھی ٹھیک ہے ۔۔۔
 
شکیل بھائی، یہاں مصرع ثانی میں بھی کی ی ساقط ہو رہی ہے جس کی وجہ سے تنافر بہت واضح محسوس ہوتا ہے.
راحل بھائی بہت بہت بہت شکریہ آپ متوجہ ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔بھائی شاہنواز کے اِس مصرعے کے لیے کچھ اور سوچتا ہوں مگر ابھی بہت تھک گیا ہوں ، انشاء اللہ کل اور اگر ذہن چلا تو شاید ابھی ہی کسی وقت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
یہ نہیں ہے کوئی خود سر نہیں دیکھا ہم نے
۔۔۔۔۔ہاں مگر تجھ سے بھی بڑھ کر نہیں دیکھا ہم نے
شکیل بھائی، یہاں مصرع ثانی میں بھی کی ی ساقط ہو رہی ہے جس کی وجہ سے تنافر بہت واضح محسوس ہوتا ہے.
راحل بھائی اب دیکھیں:
یہ نہیں ہے کوئی خود سر نہیں دیکھا ہم نے
ہاں مگر آپ سے بڑھ کر نہیں دیکھا ہم نے
 

ارشد رشید

محفلین
یہ نہیں ہے کوئی خود سر نہیں دیکھا ہم نے
۔۔۔۔۔ہاں مگر تجھ سے بھی بڑھ کر نہیں دیکھا ہم نے
لیکن سر یہ زہن میں رہے کہ اگر آپ یہ کہیں :تجھ سے بھی بڑھ کر : تو پھر آپکا اگلا جملہ انکاریہ نہیں ہوسکتا - اسکے بعد آپ کو اثباتیہ جملہ لانا ہوگا-
یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم کہیں خدا سے بڑھ کر کوئ نہیں ہے - اگر ہم :بھی: لگائیں تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ خدا سے بھی بڑھ کر کوئ نہیں ہے اب ہمیں کہنا ہوگا خدا سے بھی بڑھ کر بھلا کوئ ہے ؟
تو اس مصرعے میں آپ اگر : بھی: لگائیں گے تو آگے: نہیں دیکھا :نہیں لگا سکیں گے - اور آپ کو لکھنا ہو گا ہاں مگر تجھ سے بھی بڑھ کر کہیں دیکھا ہم نے تو اس طرح یہ مصر غلط ہوجائے گا -
 

ارشد رشید

محفلین
جان لی یار نے ایسے کہ پتہ تک نہ چلا
اس کے ہاتھوں میں بھی خنجر نہیں دیکھا ہم نے

۔۔۔ دوسرے مصرعے میں ۔۔۔ بھی ۔۔۔ زائد لگ رہا ہے ۔۔۔ اس پر بھی اعتراض آئے شاید۔۔۔ میرا ذاتی اعتراض اس پر کچھ نہیں۔۔۔
شاہد صاحب - : بھی : کا اس طرح استعمال جائز ہے -
غالب کا شعر دیکھیئے
تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر بھی، مرا رنگ زرد تھا

اس میں بھی :بھی: وہی معنیٰ دے رہا ہے جو میں نے آپ کے مصرعے میں لکھا ہے
 
اگر آپ یہ کہیں :تجھ سے بھی بڑھ کر
یہ نہیں ہے کوئی خود سر نہیں دیکھا ہم نے
ہاں مگر تجھ سے بھی بڑھ کر نہیں دیکھا ہم نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔محترم یہ شعر میں نے مندرجہ ذیل شعرسے بدل دیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ نہیں ہے کوئی خود سر نہیں دیکھا ہم نے
ہاں مگر آپ سے بڑھ کر نہیں دیکھا ہم نے
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
یہ نہیں ہے کوئی خود سر نہیں دیکھا ہم نے
ہاں، مگر تیرے برابر نہیں دیکھا ہم نے
۔۔۔ دوسری صورت بھی اچھی ہے:
یہ نہیں ہے کوئی خود سر نہیں دیکھا ہم نے
ہاں مگر آپ سے بڑھ کر نہیں دیکھا ہم نے


جان لی یار نے ایسے کہ پتہ تک نہ چلا
اس کے ہاتھوں میں بھی خنجر نہیں دیکھا ہم نے

ان کو دیکھا ہے تو دیکھا ہے بھلا کر دنیا
خود کو دیکھا بھی تو اکثر نہیں دیکھا ہم نے

جتنا ممکن ہوا، انصاف کیا ہے سب سے
کوئی کمتر کوئی برترنہیں دیکھا ہم نے

یہ 4 اشعار کی غزل ہوئی ۔۔۔

پانچویں شعر کی تلاش کرتے ہیں ۔۔۔ کچھ دیر میں ۔۔۔ ان شاء اللہ ۔۔۔
 

ارشد رشید

محفلین
جان لی ہاتھ میں خنجر نہ کہیں خوں کا نشاں
ہائے قاتل سا یہ دلبر نہیں دیکھا ہم نے
شکیل صاحب - یہ شعر اچھا ہے مگر اس میں شاہد نہیں ہے شکیل ہے -
میں نے محسوس کیا ہے کہ آپ اصلاح کرتے ہوئے اس بات کو ملحوظ رکھتے ہیں کہ میں اگر یہ شعرمیں خود کہتا تو کیسے کہتا - اور آپ اسکی ہیئت بدل دیتے ہیں - یہ نیا شعر چاہے کتنا ہی اچھا کیوں ہو اس میں سے وہ شاعر نکل جاتا ہے جس کا کہ وہ شعر ہوتا ہے - یہ آپ کا اصلاح کا انداز ہے اور میں اس سے اتفاق نہیں کرتا -
مگر ٹھیک ہے سب کا اپنا اپنا انداز ہے -
 
شکیل صاحب - یہ شعر اچھا ہے مگر اس میں شاہد نہیں ہے شکیل ہے -
محترم آپ کے بے لاگ تبصرے مجھے دل سے عزیز ہیں ۔آپ نے دُرست فرمایا۔لیکن شاہنواز صاحب کے اپنے خیال کی یہ مختلف شعری صورتیں ہیں لہٰذا وہ ان سے جو کچھ اور جتنا کچھ لینا چاہیں ، وہ اُن کا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہ لیں اور اپنے خیال (فکشن اور ڈکشن )کو ہی برقرار رکھیں تو یوں بھی صحیح ہے ۔
ایک بات یہ اور کہوں گا کہ یہ خوبی ہر شعر میں نہیں ہوتی کہ اُس کہیں سے اُٹھا کر کہیں رکھا جاسکے۔میں ایک شعر کہکر اپنے ہی سامنے اصلاح کے لیے رکھتا ہوں:
دیکھ ۔میں چھوڑ کے دنیا کو چلا جاؤں گا
آپ سے گر مجھے آنچل کی ہوائیں نہ ملیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دیکھیے چھوڑ کے دنیا میں چلا جاؤں گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو مجھے آپ کے آنچل کی ہوائیں نہ ملیں۔۔۔(خوب سے خوب تر کی جستجو کریں تو ٹھیرتی ہے دیکھیے جاکر نظر کہاں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جان لی یار نے ایسے کہ پتہ تک نہ چلا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جان لی یار نے خنجر ہے نہ ہے خوں کا نشاں
۔۔۔۔۔اس کے ہاتھوں میں بھی خنجر نہیں دیکھا ہم نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہائے قاتل سا تو دل بر نہیں دیکھا ہم نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جان لی ہاتھ میں خنجر نہ کہیں خوں کا نشاں
ہائے قاتل سا یہ دلبر نہیں دیکھا ہم نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب یہ منسوخ اور اوپر والا چلے گا۔۔۔۔۔۔
شاہد شاہنواز
 
آخری تدوین:
یہ نہیں ہے کوئی خود سر نہیں دیکھا ہم نے
ہاں، مگر تیرے برابر نہیں دیکھا ہم نے
۔۔۔ دوسری صورت بھی اچھی ہے:
یہ نہیں ہے کوئی خود سر نہیں دیکھا ہم نے
ہاں مگر آپ سے بڑھ کر نہیں دیکھا ہم نے


جان لی یار نے ایسے کہ پتہ تک نہ چلا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جان لی یار نے خنجر ہے نہ ہے خوں کا نشاں
اس کے ہاتھوں میں بھی خنجر نہیں دیکھا ہم نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہائے قاتل سا تو دلبر نہیں دیکھا ہم نے

ان کو دیکھا ہے تو دیکھا ہے بھلا کر دنیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اُس کو دیکھا ہے تو دیکھا ہے بھلا کر دنیا
خود کو دیکھا بھی تو اکثر نہیں دیکھا ہم نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خود کو اِس آن میں اکثر نہیں دیکھا ہم نے

جتنا ممکن ہوا، انصاف کیا ہے سب سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہوسکا جتنا بھی اِنصاف کیا ہے دل سے
کوئی کمتر کوئی برترنہیں دیکھا ہم نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جرمِ الفت پہ تبھی سر نہیں دیکھا ہم نے

استادِ محترم الف عین
 
آخری تدوین:
Top