الف عین
لائبریرین
میں ارشد رشید سے متفق ہوں، میں بھی خواہ مخواہ الفاظ یا مفہوم بدلنے کی کوشش نہیں کرتا الا یہ کہ کوئی فاش علطی ہو یا دفوری کسی ایک لفظ سے بہتر کوئی لفظ فوراً ذہن میں آ جائے ۔ مطلع میں سب سے پہلے مجھے لگا کہ پہلا لفظ یہ کی جگہ "یوں" ہو تو لطف بڑھ جاتا ہے
یوں نہیں ہے، کوئی خودسر...
دوسرا مصرع مجھے اصل بھی قبول ہے،
دوسرا شعر یار کی پوزیشن بدلنے سے بہتر ہو گیا
ایک مدت سے....
بہتر ہو گا میرے خیال میں
یوں نہیں ہے، کوئی خودسر...
دوسرا مصرع مجھے اصل بھی قبول ہے،
دوسرا شعر یار کی پوزیشن بدلنے سے بہتر ہو گیا
مجھے یہ شعر قبول ہے، مبہم ضرور ہے لیکن اتنا بھی نہیںہوئے زخمی بھی مگر آنکھ نہ منزل سے ہٹی
راہ میں ایک بھی پتھر نہیں دیکھا ہم نے
ارشد رشید سے متفق ہوںایک دنیا ہے جو مے خانے میں گر پڑتی ہے
ایک ہم ہیں، کبھی ساغر نہیں دیکھا ہم نے
پہلے مصرع کا "اس سے" زیادہ ابہام پیدا کرتا ہے، "اس کے بعد" کر دیں تو درست ہو جائے گاان کو ہنستے ہوئے دیکھا تھا، مگر پھر اس سے
خوبصورت کوئی منظر نہیں دیکھا ہم نے
یہ دونوں مجھے درست لگ رہے ہیںان کو دیکھا ہے تو دیکھا ہے بھلا کر دنیا
خود کو دیکھا بھی تو اکثر نہیں دیکھا ہم نے
تم سے بہتر بھی زمانے میں کوئی لگتا ہے؟
آسماں سے کبھی اوپر نہیں دیکھا ہم نے
ہم نے کتنے ہی مکاں دیکھے، مکیں بھی دیکھےکس قدر ہم نے مکاں دیکھے، مکیں بھی دیکھے
کتنی مدت سے کوئی گھر نہیں دیکھا ہم نے
ایک مدت سے....
بہتر ہو گا میرے خیال میں
برتر سے بہتر ہو گیاجتنا ممکن ہوا، انصاف کیا ہے سب سے
کوئی کمتر کوئی بہتر نہیں دیکھا ہم نے