زبیر صدیقی
محفلین
السلام علیکم صاحبان و اساتذہ۔ ایک تازہ غزل پیش ہے۔ برائے مہربانی اپنی رائے سے نوازیں۔ ایک لمبی ردیف نبھانے کی کوشش کی ہے۔
الف عین محمد خلیل الرحمٰن سید عاطف علی محمد احسن سمیع راحل
نشہ ہو رہا ہے، یہ کیا ہو رہا ہے
ترا ہو رہا ہے، یہ کیا ہو رہا ہے
ترا ہو رہا ہوں، انا کھو رہا ہوں
بجا ہو رہا ہے، یہ کیا ہو رہا ہے
گماں ہو رہا ہے کہ منظور میرا
کہا ہو رہا ہے، یہ کیا ہو رہا ہے
سفر ذات میں ہے، نظر کہہ رہی ہے
خلا ہو رہا ہے، یہ کیا ہو رہا ہے
خبر بس یہی ہے خبر کچھ نہیں ہے
کہ کیا ہو رہا ہے، یہ کیا ہو رہا ہے
دوا کی طلب تھی جسے، درد وہ خود
دوا ہو رہا ہے، یہ کیا ہو رہا ہے
بُلندی سے آ کے، یہ پستی کا آدم
خُدا ہو رہا ہے، یہ کیا ہو رہا ہے
بقا کے جتن میں محو ہو کے انساں
فنا ہو رہا ہے، یہ کیا ہو رہا ہے
ہے دھوکا یہ 'ہے' کی شُماری کہ جو ہے
وہ 'تھا' ہو رہا ہے، یہ کیا ہو رہا ہے
والسلام
الف عین محمد خلیل الرحمٰن سید عاطف علی محمد احسن سمیع راحل
نشہ ہو رہا ہے، یہ کیا ہو رہا ہے
ترا ہو رہا ہے، یہ کیا ہو رہا ہے
ترا ہو رہا ہوں، انا کھو رہا ہوں
بجا ہو رہا ہے، یہ کیا ہو رہا ہے
گماں ہو رہا ہے کہ منظور میرا
کہا ہو رہا ہے، یہ کیا ہو رہا ہے
سفر ذات میں ہے، نظر کہہ رہی ہے
خلا ہو رہا ہے، یہ کیا ہو رہا ہے
خبر بس یہی ہے خبر کچھ نہیں ہے
کہ کیا ہو رہا ہے، یہ کیا ہو رہا ہے
دوا کی طلب تھی جسے، درد وہ خود
دوا ہو رہا ہے، یہ کیا ہو رہا ہے
بُلندی سے آ کے، یہ پستی کا آدم
خُدا ہو رہا ہے، یہ کیا ہو رہا ہے
بقا کے جتن میں محو ہو کے انساں
فنا ہو رہا ہے، یہ کیا ہو رہا ہے
ہے دھوکا یہ 'ہے' کی شُماری کہ جو ہے
وہ 'تھا' ہو رہا ہے، یہ کیا ہو رہا ہے
والسلام