حوصلہ افزائی کا بہت شکریہ، ان شاءاللہ کوشش کرتا ہوںکیوں دیکھنے والوں کو بھی، درماندہ و پامال
اک میرا ہی گھر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا
وہ دجل کا ہے اب کے گھٹا ٹوپ اندھیرا
امکانِ سحر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا
واہ بہت اچھے اشعار۔
زمین بھی بہت عمدہ منفرد اور رواں چنی ہے۔ باقی اشعار پہ محنت کریں تو یہ ایک خوبصورت غزل بن جائے گی
بہتر ہے ۔ فنی اسقام کم ہوگئے ہیں ۔ اگرچہ معنوی اعتبار سے تقریباً ہر شعر میں گڑبڑ ہے ۔ ایک دو کے علاوہ کسی بھی شعر میں ردیف فٹ نہیں ہورہی ۔ ردیف میں لفظ کہ کا استعمال بہت گڑبڑ کررہا ہے ۔محترم اساتذہ الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، یاسر شاہ ، سید عاطف علی
دوبارہ دیکھیے۔۔
وہ عجزِ نظر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا
کس سمت سفر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا
اپنوں کی سدا ٹوہ میں رہتے ہو مگر غیر
آمادۂ شر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا
کیوں دیکھنے والوں کو بھی، اک خستہ و برباد
بس میرا ہی گھر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا
سب گھر کے مکیں یوں ہیں بہم دست و گریباں
گھر زیر و زبر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا
بے نور ہوئی جاتی ہے ہر چشمِ بصیرت
کچھ پیشِ نظر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا
سر پر ہے تنی دجل کی اک ایسی سیہ رات
امکانِ سحر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا
"کہ " کا لفظ کثیرالمعنی ہے اور اس کے معنی جملے میں اس کے استعمال سے متعین ہوتے ہیں ۔ "کہ" کا استعمال کس فقرے یا لفظ کے بعد کیا گیا ہے یہ بات بہت اہم ہے اور معنی متعین کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ آپ کے کچھ اشعار میں "کہ" کا مطلب "یا" بن رہا ہے ۔ یعنی جس طرح کہتے ہیں: میں گاجر کا حلوہ کھاؤں کہ گلاب جامن۔بہتر ہے ۔ فنی اسقام کم ہوگئے ہیں ۔ اگرچہ معنوی اعتبار سے تقریباً ہر شعر میں گڑبڑ ہے ۔ ایک دو کے علاوہ کسی بھی شعر میں ردیف فٹ نہیں ہورہی ۔ ردیف میں لفظ کہ کا استعمال بہت گڑبڑ کررہا ہے ۔
توجہ اور قیمتی مشوروں کے لیے بے حد شکریہ، میں بھی کوشش کرتا ہوں"کہ " کا لفظ کثیرالمعنی ہے اور اس کے معنی جملے میں اس کے استعمال سے متعین ہوتے ہیں ۔ "کہ" کا استعمال کس فقرے یا لفظ کے بعد کیا گیا ہے یہ بات بہت اہم ہے اور معنی متعین کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ آپ کے کچھ اشعار میں "کہ" کا مطلب "یا" بن رہا ہے ۔ یعنی جس طرح کہتے ہیں: میں گاجر کا حلوہ کھاؤں کہ گلاب جامن۔
ہر شعر پر فرداً فرداً گفتگو ممکن نہیں لیکن ایک دو مثالیں لکھ دیتا ہوں ۔ ان کی روشنی میں آپ دیگر اشعار کو بھی پرکھ لیجیے گا۔
سب گھر کے مکیں یوں ہیں بہم دست و گریباں
گھر زیر و زبر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا
مصرعِ اول کی نثر یہ بنی: گھر کے سب مکیں آپس میں اس طرح لڑرہے ہیں
اب اصولاً مصرعِ ثانی میں "اس طرح" کا جواب آنا چاہیے یعنی یہ بیان ہوناچا چاہیے کہ کس طرح لڑرہے ہیں ۔ لیکن مصرعِ ثانی میں کہ کا مطلب یا بن رہا ہے ۔ یعنی گھر زیر و زبر ہے یا دکھائی نہیں دیتا۔
اپنوں کی سدا ٹوہ میں رہتے ہو مگر غیر
آمادۂ شر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا
اس شعر میں بھی کہ کا مطلب یا بن رہاہے ۔ نثر: تم ہمیشہ اپنوں کی ٹوہ میں رہتے ہو مگر ۔۔۔۔۔ دشمن آمادۂ شر ہے یا دکھائی نہیں دیتا۔
مطلع کے دونوں مصرعوں میں کہ کا ستعمال ٹھیک ہوا ہے۔ خستہ و برباد گھر والے شعر میں بھی ٹھیک ہے ۔
دونوں مصرعوں میں "کہ " کھٹک رہا ہے -پہلے مصرع میں یوں کہ عجز نظر میں بھی تو دکھائی نہیں دیتا تو تضاد کہاں ہے اسی طرح دوسرے مصرع میں بھی دونوں صورتوں کے بیچ میں" کہ " بطور " یا " لگ رہا ہے جو کہ بے محل ہے - یہ ایک صورت دیکھیں مصرعوں کو اوپر نیچے کر کے :وہ عجزِ نظر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا
کس سمت سفر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا
مجھے تو اس کی پہلی شکل ہی خوب لگی تھی :کیوں دیکھنے والوں کو بھی، اک خستہ و برباد
بس میرا ہی گھر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا
یہاں بھی کہ کھٹک رہا ہے-یوں کہیں :اپنوں کی سدا ٹوہ میں رہتے ہو مگر غیر
آمادۂ شر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا
یہ شعر نکال دیں -سب گھر کے مکیں یوں ہیں بہم دست و گریباں
گھر زیر و زبر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا
یہاں" بے نور ہوئی جاتی ہے" کہنے کے بعد ردیف بے معنی ہو جاتی ہے -یوں کہیں :بے نور ہوئی جاتی ہے ہر چشمِ بصیرت
کچھ پیشِ نظر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا
پہلی صورت ٹھیک تھی :سر پر ہے تنی دجل کی اک ایسی سیہ رات
امکانِ سحر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا