برائے اصلاح ۔ وہ عجزِ نظر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا

یاسر شاہ

محفلین
کیوں دیکھنے والوں کو بھی، درماندہ و پامال
اک میرا ہی گھر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا

وہ دجل کا ہے اب کے گھٹا ٹوپ اندھیرا
امکانِ سحر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا

واہ بہت اچھے اشعار۔

زمین بھی بہت عمدہ منفرد اور رواں چنی ہے۔ باقی اشعار پہ محنت کریں تو یہ ایک خوبصورت غزل بن جائے گی
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
کیوں دیکھنے والوں کو بھی، درماندہ و پامال
اک میرا ہی گھر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا

وہ دجل کا ہے اب کے گھٹا ٹوپ اندھیرا
امکانِ سحر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا

واہ بہت اچھے اشعار۔

زمین بھی بہت عمدہ منفرد اور رواں چنی ہے۔ باقی اشعار پہ محنت کریں تو یہ ایک خوبصورت غزل بن جائے گی
حوصلہ افزائی کا بہت شکریہ، ان شاءاللہ کوشش کرتا ہوں
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بھائی ، ٹیگ کرنے کا شکریہ۔ اشعار کہ جن میں تلفظ کے مسائل ہیں ان پربات ہوچکی ہے ، میں دو تین اشعار اورتعقید کے عمومی پہلو کی طرف آپ کو متوجہ کروں گا۔

شعر میں لفظی تعقید کم سے کم ہو تو بہتر ہے ۔ حتی الامکان کوشش کیجیے کہ مصرع میں لفظی ترتیب نثر ی صورت کے قریب قریب ہو ۔ خاص طور پر محاورے میں لفظی ترتیب کو نہیں بگاڑنا چاہیے ۔ ایک آدھ لفظ اگر شعری ضرورت کے تحت اپنی جگہ سے ذرا سا ہل جائے تو چل جاتا ہے لیکن محاورے کی اصل صورت کو اس سے زیادہ مسخ کرنا جائز نہیں ہے ۔
باہم یوں ہوئے گھر کے مکیں دست و گریباں
گھر زیر و زبر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا
اصل محاورہ ہے باہم دست و گریباں ہونا ۔ لیکن یہاں باہم مصرع کے شروع میں ، ہوئے درمیان میں اور دست و گریباں بالکل آخر میں آئے ہیں ۔ یہاں محاورے کی لفظی شکل برقرار نہیں رہی بلکہ بالکل ہی مسخ ہوگئی۔ یہ ٹھیک نہیں ہے ۔

بے نور ہیں آنکھیں کہ دماغوں میں خلل ہے
کچھ پیشِ نظر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا

یہاں پیشِ نظر کا محل نہیں ہے ۔ اگر کوئی چیز ( پردہ ، دیوار وغیرہ) آنکھوں کے آگے آکر نگاہ کی رکاوٹ بن جائے تو اسے پیشِ نظر ہونا نہیں کہیں گے۔ پیشِ نظر کے معنی لغت میں دیکھ لیجیے ۔ پھر وہی بات دہراؤں گا کہ محنت کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔درست تلفظ اور معنی کے لیے لغت دیکھنے کو عادت بنائیے ۔ جہاں شک و شبہ ہو فوراً لغت کھولی لیجیے ۔ آج کل تو آنلائن دستیاب ہے ۔ ایک کلک کرنا پرتا ہے ۔ ہم نے تو ساری عمر تین چار کلو کی کتاب اٹھا کر ورق گردانی کی ہے ۔ :)

وہ دجل کا ہے اب کہ گھٹا ٹوپ اندھیرا
امکانِ سحر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا

پہللا مصرع مہمل ہے ۔ اس کی نثر بنا کر دیکھیے ۔ تعقید حد سے زیادہ ہو تو فقرہ چیستان بن جاتا ہے ۔ مجھ سے تو اس مصرع کی بامعنی نثر بھی نہیں بن سکی لیکن گمان غالب ہے کہ اس کی نثر یوں ہونا چاہیے: دجل کا وہ گھٹا ٹوپ اندھیرا ہے کہ اب
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
محترم اساتذہ الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، یاسر شاہ ، سید عاطف علی

دوبارہ دیکھیے۔۔

وہ عجزِ نظر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا
کس سمت سفر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا

اپنوں کی سدا ٹوہ میں رہتے ہو مگر غیر
آمادۂ شر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا

کیوں دیکھنے والوں کو بھی، اک خستہ و برباد
بس میرا ہی گھر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا

سب گھر کے مکیں یوں ہیں بہم دست و گریباں
گھر زیر و زبر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا

بے نور ہوئی جاتی ہے ہر چشمِ بصیرت
کچھ پیشِ نظر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا

سر پر ہے تنی دجل کی اک ایسی سیہ رات
امکانِ سحر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
محترم اساتذہ الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، یاسر شاہ ، سید عاطف علی

دوبارہ دیکھیے۔۔

وہ عجزِ نظر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا
کس سمت سفر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا

اپنوں کی سدا ٹوہ میں رہتے ہو مگر غیر
آمادۂ شر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا

کیوں دیکھنے والوں کو بھی، اک خستہ و برباد
بس میرا ہی گھر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا

سب گھر کے مکیں یوں ہیں بہم دست و گریباں
گھر زیر و زبر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا

بے نور ہوئی جاتی ہے ہر چشمِ بصیرت
کچھ پیشِ نظر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا

سر پر ہے تنی دجل کی اک ایسی سیہ رات
امکانِ سحر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا
بہتر ہے ۔ فنی اسقام کم ہوگئے ہیں ۔ اگرچہ معنوی اعتبار سے تقریباً ہر شعر میں گڑبڑ ہے ۔ ایک دو کے علاوہ کسی بھی شعر میں ردیف فٹ نہیں ہورہی ۔ ردیف میں لفظ کہ کا استعمال بہت گڑبڑ کررہا ہے ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہتر ہے ۔ فنی اسقام کم ہوگئے ہیں ۔ اگرچہ معنوی اعتبار سے تقریباً ہر شعر میں گڑبڑ ہے ۔ ایک دو کے علاوہ کسی بھی شعر میں ردیف فٹ نہیں ہورہی ۔ ردیف میں لفظ کہ کا استعمال بہت گڑبڑ کررہا ہے ۔
"کہ " کا لفظ کثیرالمعنی ہے اور اس کے معنی جملے میں اس کے استعمال سے متعین ہوتے ہیں ۔ "کہ" کا استعمال کس فقرے یا لفظ کے بعد کیا گیا ہے یہ بات بہت اہم ہے اور معنی متعین کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ آپ کے کچھ اشعار میں "کہ" کا مطلب "یا" بن رہا ہے ۔ یعنی جس طرح کہتے ہیں: میں گاجر کا حلوہ کھاؤں کہ گلاب جامن۔
ہر شعر پر فرداً فرداً گفتگو ممکن نہیں لیکن ایک دو مثالیں لکھ دیتا ہوں ۔ ان کی روشنی میں آپ دیگر اشعار کو بھی پرکھ لیجیے گا۔
سب گھر کے مکیں یوں ہیں بہم دست و گریباں
گھر زیر و زبر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا

مصرعِ اول کی نثر یہ بنی: گھر کے سب مکیں آپس میں اس طرح لڑرہے ہیں
اب اصولاً مصرعِ ثانی میں "اس طرح" کا جواب آنا چاہیے یعنی یہ بیان ہوناچا چاہیے کہ کس طرح لڑرہے ہیں ۔ لیکن مصرعِ ثانی میں کہ کا مطلب یا بن رہا ہے ۔ یعنی گھر زیر و زبر ہے یا دکھائی نہیں دیتا۔

اپنوں کی سدا ٹوہ میں رہتے ہو مگر غیر
آمادۂ شر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا

اس شعر میں بھی کہ کا مطلب یا بن رہاہے ۔ نثر: تم ہمیشہ اپنوں کی ٹوہ میں رہتے ہو مگر ۔۔۔۔۔ دشمن آمادۂ شر ہے یا دکھائی نہیں دیتا۔

مطلع کے دونوں مصرعوں میں کہ کا ستعمال ٹھیک ہوا ہے۔ خستہ و برباد گھر والے شعر میں بھی ٹھیک ہے ۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
"کہ " کا لفظ کثیرالمعنی ہے اور اس کے معنی جملے میں اس کے استعمال سے متعین ہوتے ہیں ۔ "کہ" کا استعمال کس فقرے یا لفظ کے بعد کیا گیا ہے یہ بات بہت اہم ہے اور معنی متعین کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ آپ کے کچھ اشعار میں "کہ" کا مطلب "یا" بن رہا ہے ۔ یعنی جس طرح کہتے ہیں: میں گاجر کا حلوہ کھاؤں کہ گلاب جامن۔
ہر شعر پر فرداً فرداً گفتگو ممکن نہیں لیکن ایک دو مثالیں لکھ دیتا ہوں ۔ ان کی روشنی میں آپ دیگر اشعار کو بھی پرکھ لیجیے گا۔
سب گھر کے مکیں یوں ہیں بہم دست و گریباں
گھر زیر و زبر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا

مصرعِ اول کی نثر یہ بنی: گھر کے سب مکیں آپس میں اس طرح لڑرہے ہیں
اب اصولاً مصرعِ ثانی میں "اس طرح" کا جواب آنا چاہیے یعنی یہ بیان ہوناچا چاہیے کہ کس طرح لڑرہے ہیں ۔ لیکن مصرعِ ثانی میں کہ کا مطلب یا بن رہا ہے ۔ یعنی گھر زیر و زبر ہے یا دکھائی نہیں دیتا۔

اپنوں کی سدا ٹوہ میں رہتے ہو مگر غیر
آمادۂ شر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا

اس شعر میں بھی کہ کا مطلب یا بن رہاہے ۔ نثر: تم ہمیشہ اپنوں کی ٹوہ میں رہتے ہو مگر ۔۔۔۔۔ دشمن آمادۂ شر ہے یا دکھائی نہیں دیتا۔

مطلع کے دونوں مصرعوں میں کہ کا ستعمال ٹھیک ہوا ہے۔ خستہ و برباد گھر والے شعر میں بھی ٹھیک ہے ۔
توجہ اور قیمتی مشوروں کے لیے بے حد شکریہ، میں بھی کوشش کرتا ہوں
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم روفی بھائی

اپنی غزل میں آپ نے "کہ" کو مختلف معنوں میں استعمال کرنے کی کوشش کی ہے -بعضوں کے نزدیک غزل میں ردیف الفاظ و معانی دونوں کے اعتبار سے ایک ہونی چاہیے اور بعضوں کے نزدیک ردیف کی لفظی تکرار ہونی چاہیے معنوی اعتبار سے تبدیلی کی گنجائش ہے -دوسرا مسلک ردیف کے متعلق غالب کا بھی ہے-مگر دقت یہ ہے کہ آپ کی غزل میں "کہ" کا استعمال کچھ مقامات پہ کھٹکتا ہے -غزل دیکھتے ہیں :



وہ عجزِ نظر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا
کس سمت سفر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا
دونوں مصرعوں میں "کہ " کھٹک رہا ہے -پہلے مصرع میں یوں کہ عجز نظر میں بھی تو دکھائی نہیں دیتا تو تضاد کہاں ہے اسی طرح دوسرے مصرع میں بھی دونوں صورتوں کے بیچ میں" کہ " بطور " یا " لگ رہا ہے جو کہ بے محل ہے - یہ ایک صورت دیکھیں مصرعوں کو اوپر نیچے کر کے :

کیسا یہ سفر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا
یہ صرفِ نظر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا
 

یاسر شاہ

محفلین

یاسر شاہ

محفلین
اپنوں کی سدا ٹوہ میں رہتے ہو مگر غیر
آمادۂ شر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا
یہاں بھی کہ کھٹک رہا ہے-یوں کہیں :

اپنوں کی سدا ٹوہ میں تم رہتے ہو لیکن
یا
اپنوں کی لگے رہتے ہو تم ٹوہ میں لیکن
اک غیر کا شر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا
 

یاسر شاہ

محفلین
سب گھر کے مکیں یوں ہیں بہم دست و گریباں
گھر زیر و زبر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا
یہ شعر نکال دیں -
ویسے بھی توڑ پھوڑ کے بعد نئے سرے سے گھر بنانا چاہیے -
بے نور ہوئی جاتی ہے ہر چشمِ بصیرت
کچھ پیشِ نظر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا
یہاں" بے نور ہوئی جاتی ہے" کہنے کے بعد ردیف بے معنی ہو جاتی ہے -یوں کہیں :

ہر چشمِ بصیرت بھی ہے بس محوِ تماشا
کیا بندِنظر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا

بندِ نظر نظر بندی کے معنوں میں ترکیب گڑھی ہے -
 

یاسر شاہ

محفلین
سر پر ہے تنی دجل کی اک ایسی سیہ رات
امکانِ سحر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا
پہلی صورت ٹھیک تھی :

وہ دجل کا ہے اب کے گھٹا ٹوپ اندھیرا
امکانِ سحر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا

بہت سے بہت یہ کر دیں :

وہ دجل کا چھایا ہے گھٹا ٹوپ اندھیرا
امکانِ سحر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا

یہاں "کہ" کے دو معانی نکل رہے ہیں جس سے شعر میں دو رنگ پیدا ہو رہے ہیں ایک میں شاعر مایوس نظر آتا ہے یہ کہتے ہوئے کہ امکان سحر دکھائی نہیں دیتا اور دوسرے میں وہ شش و پنج میں ہے کہ آیا یہ گھٹا ٹوپ اندھیرا سحر کی نوید ہے کیونکہ سحر سے پہلے مکمل اندھیرا ہوتا ہے یا پھر میں ہی اندھا ہو گیا ہوں -
 

یاسر شاہ

محفلین
دوران مشورہ برائے غزل ایک شعر مزاحیہ ہو گیا اور دوسرا سنجیدہ -آپ کو ہدیہ :

مزاحیہ تو یہ ہے :

میں نے کہا چڈی نہیں پہنو تو وہ بولا
ایسی یہ نکر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا

نکر =نیکر

اور سنجیدہ کچھ یوں ہے کہ

لوگوں سے تو ڈرتے ہوئے آتے ہیں نظر لوگ
اک رب کا ہی ڈر ہے کہ دکھائی نہیں دیتا
 
Top