فلسفی
محفلین
نبض میری دیکھ، کر اس طبیب نے کہا
مرضِ عشق میں ہوئے، آپ کب سے مبتلا
آپ لاعلاج ہو، اس لیے کہ آج تک
نامراد عشق کی، بن سکی نہیں دوا
بزم زیست ہو گئی، روشن ان کے نام سے
اک طویل رات کا، اختتام ہو گیا
آج کیوں مزاج میں، بڑھ گئی ہیں تلخیاں
پھر کسی رقیب سے، مل کے آ رہے ہو کیا
ایک رات خواب میں، ان سے گفتگو ہوئی
ان کو بات بات میں، حالِ دل سنا دیا
میں نے کیا غلط کہا، ان کو جو برا لگا
اک ذرا سی بات پر، وہ کیوں ہو گئے خفا
کیا مری وفات کا، ان کو انتظار ہے
کیوں انھوں نے آج تک، مجھ سے کچھ نہیں کہا
ایک ساتھ روٹھ کر، باغ سے چلی گئیں
تتلیوں کو پھول نے، کہہ دیا نہ جانے کیا
خوب سے بھی خوب تر، ڈھونڈتے رہے مگر
جو نصیب میں تھا وہ، آخر آج مل گیا
مرضِ عشق میں ہوئے، آپ کب سے مبتلا
آپ لاعلاج ہو، اس لیے کہ آج تک
نامراد عشق کی، بن سکی نہیں دوا
بزم زیست ہو گئی، روشن ان کے نام سے
اک طویل رات کا، اختتام ہو گیا
آج کیوں مزاج میں، بڑھ گئی ہیں تلخیاں
پھر کسی رقیب سے، مل کے آ رہے ہو کیا
ایک رات خواب میں، ان سے گفتگو ہوئی
ان کو بات بات میں، حالِ دل سنا دیا
میں نے کیا غلط کہا، ان کو جو برا لگا
اک ذرا سی بات پر، وہ کیوں ہو گئے خفا
کیا مری وفات کا، ان کو انتظار ہے
کیوں انھوں نے آج تک، مجھ سے کچھ نہیں کہا
ایک ساتھ روٹھ کر، باغ سے چلی گئیں
تتلیوں کو پھول نے، کہہ دیا نہ جانے کیا
خوب سے بھی خوب تر، ڈھونڈتے رہے مگر
جو نصیب میں تھا وہ، آخر آج مل گیا