فلسفی
محفلین
سر الف عین اور دیگر اساتذہ ایک غزل اصلاح کی غرض سے پیش کر رہا ہوں۔
اجنبی کون آیا نیا شہر میں
جس کی شہرت کا چرچا ہوا شہر میں
سینکڑوں لوگ باہر نکلنے لگے
نام کس کا پکارا گیا شہر میں
بندگی سرکشی میں بدلنے لگی
لوگ بننے لگے ہیں خدا شہر میں
ختم مایوسیوں کے اندھیرے ہوئے
حکمراں آگیا ہے نیا شہر میں
رخ سے پردہ اٹھایا انھوں نے جو پھر
ایک ہنگامہ برپا ہوا شہر میں
چل کسی اور بستی کی جانب چلیں
اب نہیں ہے کوئی آسرا شہر میں
تیرا الزام جب ملزموں نے سنا
اک تماشا غضب کا ہوا شہر میں
میری آؤ بھگت کرتا ایسے کوئی
کون تیرے سوا دوسرا شہر میں
لے کر آئی مرے نام خوشبو بھرا
تیرا پیغام بادِ صبا شہر میں
بک گیا دین و ایمان بازار میں
ہو گیا ختم خوفِ خدا شہر میں
سر پر اوڑھے شرافت کی دستار کو
ہر کوئی دے رہا ہے دغا شہر میں
دوش تقدیر کا ہے تو پھر کیوں رہے
آدمی آدمی سے خفا شہر میں
عشق میں مبتلا تھا کبھی جو مریض
بیچتا پھر رہا ہے دوا شہر میں
عقل حاوی ہے اہلِ جنوں پر بھی اب
کون جانچے کا تیری وفا شہر میں
پھر رہے ہیں تہی دست تیرے سبب
اوڑھ کر عافیت کی قبا شہر میں
شیخ کے مقتدی ہے سبھی پارسا
فلسفیؔ رہ گیا ہے برا شہر میں
جس کی شہرت کا چرچا ہوا شہر میں
سینکڑوں لوگ باہر نکلنے لگے
نام کس کا پکارا گیا شہر میں
بندگی سرکشی میں بدلنے لگی
لوگ بننے لگے ہیں خدا شہر میں
ختم مایوسیوں کے اندھیرے ہوئے
حکمراں آگیا ہے نیا شہر میں
رخ سے پردہ اٹھایا انھوں نے جو پھر
ایک ہنگامہ برپا ہوا شہر میں
چل کسی اور بستی کی جانب چلیں
اب نہیں ہے کوئی آسرا شہر میں
تیرا الزام جب ملزموں نے سنا
اک تماشا غضب کا ہوا شہر میں
میری آؤ بھگت کرتا ایسے کوئی
کون تیرے سوا دوسرا شہر میں
لے کر آئی مرے نام خوشبو بھرا
تیرا پیغام بادِ صبا شہر میں
بک گیا دین و ایمان بازار میں
ہو گیا ختم خوفِ خدا شہر میں
سر پر اوڑھے شرافت کی دستار کو
ہر کوئی دے رہا ہے دغا شہر میں
دوش تقدیر کا ہے تو پھر کیوں رہے
آدمی آدمی سے خفا شہر میں
عشق میں مبتلا تھا کبھی جو مریض
بیچتا پھر رہا ہے دوا شہر میں
عقل حاوی ہے اہلِ جنوں پر بھی اب
کون جانچے کا تیری وفا شہر میں
پھر رہے ہیں تہی دست تیرے سبب
اوڑھ کر عافیت کی قبا شہر میں
شیخ کے مقتدی ہے سبھی پارسا
فلسفیؔ رہ گیا ہے برا شہر میں