فلسفی
محفلین
سر الف عین
پکڑی ہوئی ہے ہاتھ میں بوتل شراب کی
رندوں کو فکر ہے کہاں یومِ حساب کی
محفل سے رند لوٹ کے مسجد میں باوضو
سنتے ہیں روز شیخ سے باتیں عذاب کی
ساقی نشہ نہیں رہا آبِ نشاط میں
مدہوش کر گئیں مگر آنکھیں جناب کی
تائب ہوئے ہی تھے کہ انھیں دیکھ کر قریب
بیکار ہو گئی تگ و دو انقلاب کی
لفظوں پر اعتبار تو بالکل ہی اٹھ گیا
تاویل خط میں دیکھ کے خانہ خراب کی
کچے گھڑے کو ہاتھ میں تھامے ہوئے تھا عشق
بپھری ہوئی تھیں سامنے لہریں چناب کی
عاشق ترے عجیب ہیں دنیا میں اے خدا
دوزخ کا جن کو خوف نہ لالچ ثواب کی
ہاتھوں میں فلسفیؔ کے بھی تسبیح آ گئی
جس وقت ختم ہو گئی مدت شباب کی
رندوں کو فکر ہے کہاں یومِ حساب کی
محفل سے رند لوٹ کے مسجد میں باوضو
سنتے ہیں روز شیخ سے باتیں عذاب کی
ساقی نشہ نہیں رہا آبِ نشاط میں
مدہوش کر گئیں مگر آنکھیں جناب کی
تائب ہوئے ہی تھے کہ انھیں دیکھ کر قریب
بیکار ہو گئی تگ و دو انقلاب کی
لفظوں پر اعتبار تو بالکل ہی اٹھ گیا
تاویل خط میں دیکھ کے خانہ خراب کی
کچے گھڑے کو ہاتھ میں تھامے ہوئے تھا عشق
بپھری ہوئی تھیں سامنے لہریں چناب کی
عاشق ترے عجیب ہیں دنیا میں اے خدا
دوزخ کا جن کو خوف نہ لالچ ثواب کی
ہاتھوں میں فلسفیؔ کے بھی تسبیح آ گئی
جس وقت ختم ہو گئی مدت شباب کی