فلسفی
محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح و تنقید کی گذارش ہے
تاریکیوں میں ہجرکی تنہا کبھی کبھی
ڈرتا ہے خود سے خوف کا سایا کبھی کبھی
کیفِ وصالِ یار کی خوشبو لیے ہوئے
آتا ہے اک خیال پرانا کبھی کبھی
گھیرا ہے دل نے درد کو ساحل کی طرز پر
چھوتی ہیں آ کے لہریں کنارہ کبھی کبھی
شیشے میں قید کر کے محبت کے عکس کو
دیکھیں گے آئینے میں سراپا کبھی کبھی
محفل کی بات اور ہے تنہائیوں میں وہ
روتے ہیں نام لے کے ہمارا کبھی کبھی
اپنوں نے سب کے سامنے دھکے دیے مگر
غیروں نے ہاتھ دے کے سنبھالا کبھی کبھی
شاید کسی رقیب سے اب تک ہے رابطہ
ملتا ہے ان کے خط میں اشارہ کبھی کبھی
ڈرتا ہے خود سے خوف کا سایا کبھی کبھی
کیفِ وصالِ یار کی خوشبو لیے ہوئے
آتا ہے اک خیال پرانا کبھی کبھی
گھیرا ہے دل نے درد کو ساحل کی طرز پر
چھوتی ہیں آ کے لہریں کنارہ کبھی کبھی
شیشے میں قید کر کے محبت کے عکس کو
دیکھیں گے آئینے میں سراپا کبھی کبھی
محفل کی بات اور ہے تنہائیوں میں وہ
روتے ہیں نام لے کے ہمارا کبھی کبھی
اپنوں نے سب کے سامنے دھکے دیے مگر
غیروں نے ہاتھ دے کے سنبھالا کبھی کبھی
شاید کسی رقیب سے اب تک ہے رابطہ
ملتا ہے ان کے خط میں اشارہ کبھی کبھی
مدیر کی آخری تدوین: