برائے اصلاح

سر الف عین اور دیگر احباب کی نظر برائے اصلاح و تنقید

نگاہ میں بسا ہوا اگر درِ رسولؐ ہو
جہانِ دلفریب کیا کہ رہگزر کی دھول ہو

مدام دِل میں جاگزیں محبتِ رسولؐ ہو
اگر نہ ہو تو روزہ و نماز سب فضول ہو

بصد خلوص ہدیۂ نیاز جو قبول ہو
مرے نصیبِ شوق پر کمال کا نزول ہو

کچھ اور تو سکت نہیں، تہی ہے دامنِ غلام
دُرود اور سلام ہے حضورؐ یہ قبول ہو

جبیں پہ مَل غبارِ راہ پُر یقیں مقام کا
کہ حالِ بے یقین پر یقین کا نزول ہو

ملول کیا دلوں پہ ہو سروشؔ روزِ حشر کا
جو عاصیوں کے واسطے شفاعتِ رسولؐ ہو
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
نگاہ میں بسا ہوا اگر درِ رسولؐ ہو
جہانِ دلفریب کیا کہ رہگزر کی دھول ہو
.... مطلع واضح نہیں عجز بیان کا شکار ہے

مدام دِل میں جاگزیں محبتِ رسولؐ ہو
اگر نہ ہو تو روزہ و نماز سب فضول ہو
... فضول ہے' کا مقام ہے' ہو' کا نہیں۔ الفاظ بدلنے کی کوشش کریں ورنہ پھر ایسے ہی چلنے دو کہ ردیف ہی ایسی ہے
باقی اشعار درست ہیں ماشاء اللہ
 
نگاہ میں بسا ہوا اگر درِ رسولؐ ہو
جہانِ دلفریب کیا کہ رہگزر کی دھول ہو
.... مطلع واضح نہیں عجز بیان کا شکار ہے

مدام دِل میں جاگزیں محبتِ رسولؐ ہو
اگر نہ ہو تو روزہ و نماز سب فضول ہو
... فضول ہے' کا مقام ہے' ہو' کا نہیں۔ الفاظ بدلنے کی کوشش کریں ورنہ پھر ایسے ہی چلنے دو کہ ردیف ہی ایسی ہے
باقی اشعار درست ہیں ماشاء اللہ

بہت شکریہ سر۔ مطلع تو اور نہیں ہو سکا۔ وہ مطلع نکال دیتا ہوں پھر اور اسے مطلع بنا لیتا ہوں:
بصد خلوص ہدیۂ نیاز جو قبول ہو
مرے نصیبِ شوق پر کمال کا نزول ہو

یہ اشعار بھی ملاحظہ ہوں:

مقامِ لامکاں تلک ہو مرتبے کی اوج تو
مقامِ لامکاں کہاں عقول میں دخول ہو

دِلوں کو دے رسائی اے خدا درِ رسولؐ تک
کہ جز محبتِ رسولؐ اور کیا حصول ہو
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
بصد خلوص ہدیۂ نیاز جو قبول ہو
مرے نصیبِ شوق پر کمال کا نزول ہو

۔۔۔ بطور مطلع بھی درست ہی کہیں گے، کوئی مضائقہ نہیں۔۔

یہ اشعار بھی ملاحظہ ہوں:

مقامِ لامکاں تلک ہو مرتبے کی اوج تو
مقامِ لامکاں کہاں عقول میں دخول ہو
۔۔۔ پہلے مصرعے میں لفظ "تو" کا آخر میں استعمال اسے کمزور کر رہا ہے۔
۔۔۔ دوسرا مصرع روز مرہ و محاورہ کے اعتبار سے درست نہیں۔ کہنا یہ ہے نا کہ مقامِ لامکاں عقل میں نہیں آ سکتا۔۔۔اگر یہ کہنا ہے کہ مقام لامکاں کا عقول میں دخول نہیں ہوسکتا، تو یہاں "کا" کی کمی ہے۔۔۔
معنی کے اعتبار سے بھی غور فرمائیے ۔۔۔ آپ کے ذہن میں خود یہ واضح ہونا ضروری ہے کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں، الفاظ خود بخود آجائیں گے۔۔۔ تھوڑی دیر غور کرنے کا مقام ہے۔۔۔

دِلوں کو دے رسائی اے خدا درِ رسولؐ تک
کہ جز محبتِ رسولؐ اور کیا حصول ہو
۔۔۔ درست ۔۔۔
 
بصد خلوص ہدیۂ نیاز جو قبول ہو
مرے نصیبِ شوق پر کمال کا نزول ہو

۔۔۔ بطور مطلع بھی درست ہی کہیں گے، کوئی مضائقہ نہیں۔۔

یہ اشعار بھی ملاحظہ ہوں:

مقامِ لامکاں تلک ہو مرتبے کی اوج تو
مقامِ لامکاں کہاں عقول میں دخول ہو
۔۔۔ پہلے مصرعے میں لفظ "تو" کا آخر میں استعمال اسے کمزور کر رہا ہے۔
۔۔۔ دوسرا مصرع روز مرہ و محاورہ کے اعتبار سے درست نہیں۔ کہنا یہ ہے نا کہ مقامِ لامکاں عقل میں نہیں آ سکتا۔۔۔اگر یہ کہنا ہے کہ مقام لامکاں کا عقول میں دخول نہیں ہوسکتا، تو یہاں "کا" کی کمی ہے۔۔۔
معنی کے اعتبار سے بھی غور فرمائیے ۔۔۔ آپ کے ذہن میں خود یہ واضح ہونا ضروری ہے کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں، الفاظ خود بخود آجائیں گے۔۔۔ تھوڑی دیر غور کرنے کا مقام ہے۔۔۔

دِلوں کو دے رسائی اے خدا درِ رسولؐ تک
کہ جز محبتِ رسولؐ اور کیا حصول ہو
۔۔۔ درست ۔۔۔

آپ کی رہنمائی کا بہت شکریہ۔
مصرعہ اولٰی کو اگر یوں کر دیا جائے

مقامِ لامکاں تلک تو مرتبے کی اوج ہے
مقام لامکاں کا کب عقول میں دخول ہو

کیا یہ واضح ہو گا یا نہیں

کہنا تو یہی ہے کہ مقامِ لامکاں عقل میں نہیں آسکتا۔
 
اصلاح کے بعد کے مکمل صورت:

بصد خلوص ہدیۂ نیاز جو قبول ہو
مرے نصیبِ شوق پر کمال کا نزول ہو

مُدام دِل میں جاگزیں محبتِ رسولؐ ہو
اگر نہ ہو تو روزہ و نماز سب فضول ہو

مقامِ لامکاں تلک تو مرتبے کی اوج ہے
اب اُس مقام تک کہاں بلندئ عقول ہو

دِلوں کو دے رسائی اے خدا درِ رسولؐ تک
کہ جز محبتِ رسولؐ اور کیا حصول ہو

کچھ اور تو سکت نہیں، تہی ہے دامنِ غلام
دُرود اور سلام ہے، حضورؐ یہ قبول ہو

جبیں پہ مَل غبارِ راہ پُر یقیں مقام کا
کہ حالِ بے یقین پر یقین کا نزول ہو

ملول کیا دِلوں پہ ہو سروشؔ روزِ حشر کا
جو عاصیوں کے واسطے شفاعتِ رسولؐ ہو​
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
مُدام دِل میں جاگزیں محبتِ رسولؐ ہو
اگر نہ ہو تو روزہ و نماز سب فضول ہو
۔۔۔ جو ہو نہ عشقِ مصطفٰی تو زندگی فضول ہے۔۔۔ آپ کے مصرع ثانی سے یہ مصرع ذہن میں آجاتا ہے، بعض کے نزدیک یہ جائز اور بعض اسے قابل اعتراض قرار دیتے ہیں۔ میری نظر میں کوئی حرج نہیں۔
مقامِ لامکاں تلک تو مرتبے کی اوج ہے
اب اُس مقام تک کہاں بلندئ عقول ہو
۔۔۔ بلندی عقول سے رسائی عقول بہتر لگتا ہے یہاں، ویسے تو میں عقل کی رسائی کے حق میں تھا، لیکن یہاں معاملہ قافیہ ملانے کا بھی درپیش ہے۔۔۔ اس کے علاوہ ایک مصرع میں تلک ، دوسرےمیں تک، مسئلہ پیدا کررہا ہے۔ اسے یوں کیجئے تو کیسا ہو:
مقامِ لامکاں تو ان کے مرتبے کی اوج ہے
اب اس مقام تک کہاں رسائی عقول ہو۔۔۔
۔۔۔​
 

شاہنواز بھائی! رہنمائی کا بہت شکریہ۔ سمجھ نہیں آیا بعض کے نزدیک کیا جائز ہے اور بعض کے نزدیک کیا قابلِ اعتراض ہے؟
آپ کی یہ اصلاح بہتر ہے مقامِ لامکاں تو ان کے مرتبے کی اوج ہے، مجھے بھی ایک مصرعہ میں تلک اور دوسرے میں تک عجیب لگ رہا تھا۔ پر سمجھ نہیں آرہی تھی۔ آپ نے نشاندہی کر دی۔ مجھے بلندیٴ عقول بولنے میں ذرا آسان لگ رہا ہے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
شاہنواز بھائی! رہنمائی کا بہت شکریہ۔ سمجھ نہیں آیا بعض کے نزدیک کیا جائز ہے اور بعض کے نزدیک کیا قابلِ اعتراض ہے؟
آپ کی یہ اصلاح بہتر ہے مقامِ لامکاں تو ان کے مرتبے کی اوج ہے، مجھے بھی ایک مصرعہ میں تلک اور دوسرے میں تک عجیب لگ رہا تھا۔ پر سمجھ نہیں آرہی تھی۔ آپ نے نشاندہی کر دی۔ مجھے بلندیٴ عقول بولنے میں ذرا آسان لگ رہا ہے۔
جو آپ کو آسان لگ رہا ہے، وہ اپنا لیجئے۔ شاعری آپ کی ہے، تو رائے بھی آپ کی مانی جائے گی۔

ہاں، جو سمجھ میں نہ آیا، اس کی وضاحت کردوں۔

مُدام دِل میں جاگزیں محبتِ رسولؐ ہو
اگر نہ ہو تو روزہ و نماز سب فضول ہو

دوسرے مصرعے کو دیکھ کر میرے ذہن میں "جو ہو نہ عشقِ مصطفی ﷺ تو زندگی فضول ہے" یہ مصرع آگیا، غور فرمائیے تو کسی قدر مماثلت محسوس ہوتی ہے۔ جو میرے ذہن میں آیا، وہ مشہور ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ آپ کا مصرع کسی اور کی شاعری سے مل رہا ہے، اس سے بچنے کی ضرورت ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں کیا تھا؟ یہ دیکھا جائے۔ آپ نے تو وہ مصرع ذہن میں رکھتے ہوئے نہیں لکھا۔ اس لیے میری رائے یہ ہے کہ اس سے مماثلت میں تلاش کر رہا ہوں تو یہ میری نظر کا قصور سمجھا جائے گا، آپ کا نہیں۔ آپ کا مصرع الگ ہے، اس لیے جائز ہے۔
 
جو آپ کو آسان لگ رہا ہے، وہ اپنا لیجئے۔ شاعری آپ کی ہے، تو رائے بھی آپ کی مانی جائے گی۔

ہاں، جو سمجھ میں نہ آیا، اس کی وضاحت کردوں۔

مُدام دِل میں جاگزیں محبتِ رسولؐ ہو
اگر نہ ہو تو روزہ و نماز سب فضول ہو

دوسرے مصرعے کو دیکھ کر میرے ذہن میں "جو ہو نہ عشقِ مصطفی ﷺ تو زندگی فضول ہے" یہ مصرع آگیا، غور فرمائیے تو کسی قدر مماثلت محسوس ہوتی ہے۔ جو میرے ذہن میں آیا، وہ مشہور ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ آپ کا مصرع کسی اور کی شاعری سے مل رہا ہے، اس سے بچنے کی ضرورت ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں کیا تھا؟ یہ دیکھا جائے۔ آپ نے تو وہ مصرع ذہن میں رکھتے ہوئے نہیں لکھا۔ اس لیے میری رائے یہ ہے کہ اس سے مماثلت میں تلاش کر رہا ہوں تو یہ میری نظر کا قصور سمجھا جائے گا، آپ کا نہیں۔ آپ کا مصرع الگ ہے، اس لیے جائز ہے۔

اچھا اچھا، بہت شکریہ۔
نہیں میری نظر سے یہ نہیں گزرا تھا، ویسے میں نے نماز و روزہ کی بات کی ہے اور اس شعر میں زندگی فضول کی بات کی ہے، دونوں میں بات تو مختلف ہے ہاں زمین ایک ہے، آپ نے اسے جائز قرار دے دیا، اگر جائز نہ کہتے تو کوئی اور صورت تلاش کر لیتا :)
 
Top