برائے اصلاح

اسد امین

محفلین
گو خاک بناتی ہے تجھے دوریِ ادراک
پر دانشِ خاکی تجھے زیبا نہیں اے خاک!

خوش آتا نہیں مجھ کو ترا تیشہِ افکار
سر گشتہِ آفت ہے یا سر گشتہِ تریاک

تو حکمتِ اخفی کو کبھی چن نہیں سکتا
گوہر ہے یہ ایسا کہ نہ کنکر ہے نہ خاشاک

تو شاد نہ ہو دیکھ کے آٸینہِ بے داغ
اس چہرہِ روشن میں ہے اک شیشہِ ناپاک

اب تک تجھے نازاں رہی یہ بو قلمونی
اب ہستیِ نابود کو کر مایہِ بے باک
 

الف عین

لائبریرین
خوش آتا نہیں مجھ کو ترا تیشہِ افکار
سر گشتہِ آفت ہے یا سر گشتہِ تریاک
دوسرے مصرعے میں کچھ ٹائپنگ کی غلطی ہے شاید کہ بحر سے خارج ہو گیا ہے
تریاک؟ کیا تریاق مراد ہے؟ جو قافیہ نہیں ہو سکتا
باقی اشعار میں عروضی خامی تو کوئی نظر نہیں آتی۔
معنوی اعتبار سے میں خود کو اس کا اہل نہیں سمجھتا۔ سید عاطف علی کچھ کہہ سکیں۔ یہ اقبال جیسا فلسفہ میری چائے کی پیالی نہیں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
خوش آتا نہیں مجھ کو ترا تیشہِ افکار
سر گشتہِ آفت ہے یا سر گشتہِ تریاک
دوسرے مصرعے میں کچھ ٹائپنگ کی غلطی ہے شاید کہ بحر سے خارج ہو گیا ہے
تریاک؟ کیا تریاق مراد ہے؟ جو قافیہ نہیں ہو سکتا
باقی اشعار میں عروضی خامی تو کوئی نظر نہیں آتی۔
معنوی اعتبار سے میں خود کو اس کا اہل نہیں سمجھتا۔ سید عاطف علی کچھ کہہ سکیں۔ یہ اقبال جیسا فلسفہ میری چائے کی پیالی نہیں
شا عری اگر کسی کے متعین رنگ میں کی جائے خصوصا اقبال کے تو اقبال کے ہاں استعمال شدہ تشبیہات اور استعارات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جو کلام اقبال میں اتنی کثرت سے مستعمل ہیں ہیں کہ گویا وہ شاعرانہ تشبیہات و استعارات نہیں بلکہ اقبال کی اصطلاحات کہلاتی ہیں وہ ہر جگہ کرمک شمع خاک و نور خودی وبےخودی عشق و عقل سے ایسی مراد لیتے ہیں جو انکا کلام ہی متعین کرتا ہے ۔ ایسے میں کسی شاعر کے تتبع کا رنگ نئے شاعر کی اپنی تخلیق پر ایک سوال بن جاتا ہے ۔
مندرجہ بالا غزل میں کئی جگہ اسلوب بیان غیر واضح ہے جیسا کہ مطلع میں دیکھا جاسکتا ہے ۔
"اگر چہ خاک تجھے دوریِ ادراک بناتی ہے "
"خاک کا کسی کو دوری بنا دینا" ایک غیرواضح اور بنا بریں بے معنی تصور پیش کرتا ہے ۔دوسرے مصرع میں اس کا جواب دیا گیا ہے لیکن سوال ہی عجز بیان میں الجھ گیا تو جواب کا لطف جاتا رہا ۔
اسی طرح آخری شعر بھی عجز بیان سے بے معنی سا ہوگیا کہ "بو قلمونی کسی کو نازاں " کس طرح ہو سکتی ہے؟ اور شاعر نے کیا مراد لینی چاہی ہے ۔
لفظی اور عروضی لحاظ سے تو کچھ قابل ذکر بات نہیں ۔البتہ معنی اور اسلوب پر نظر ثانی کی جانی چاہیئے ۔
تریاق کا صحیح تلفظ تو یہی ہے ،تریاک نہیں ۔
 

اسد امین

محفلین
شا عری اگر کسی کے متعین رنگ میں کی جائے خصوصا اقبال کے تو اقبال کے ہاں استعمال شدہ تشبیہات اور استعارات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جو کلام اقبال میں اتنی کثرت سے مستعمل ہیں ہیں کہ گویا وہ شاعرانہ تشبیہات و استعارات نہیں بلکہ اقبال کی اصطلاحات کہلاتی ہیں وہ ہر جگہ کرمک شمع خاک و نور خودی وبےخودی عشق و عقل سے ایسی مراد لیتے ہیں جو انکا کلام ہی متعین کرتا ہے ۔ ایسے میں کسی شاعر کے تتبع کا رنگ نئے شاعر کی اپنی تخلیق پر ایک سوال بن جاتا ہے ۔
مندرجہ بالا غزل میں کئی جگہ اسلوب بیان غیر واضح ہے جیسا کہ مطلع میں دیکھا جاسکتا ہے ۔
"اگر چہ خاک تجھے دوریِ ادراک بناتی ہے "
"خاک کا کسی کو دوری بنا دینا" ایک غیرواضح اور بنا بریں بے معنی تصور پیش کرتا ہے ۔دوسرے مصرع میں اس کا جواب دیا گیا ہے لیکن سوال ہی عجز بیان میں الجھ گیا تو جواب کا لطف جاتا رہا ۔
اسی طرح آخری شعر بھی عجز بیان سے بے معنی سا ہوگیا کہ "بو قلمونی کسی کو نازاں " کس طرح ہو سکتی ہے؟ اور شاعر نے کیا مراد لینی چاہی ہے ۔
لفظی اور عروضی لحاظ سے تو کچھ قابل ذکر بات نہیں ۔البتہ معنی اور اسلوب پر نظر ثانی کی جانی چاہیئے ۔
تریاق کا صحیح تلفظ تو یہی ہے ،تریاک نہیں ۔
گو خاک بناتی ہے تجھے دوریِ ادراک۔
اس مصرعے کو اس معنی میں لیا گیا ہے کہ " اگرچہ ادراک کی دوری تجھے خاک بناتی ہے"
اگر پھر بھی معنویت واضح نہیں تو تبدیل کر لیا جائے گا۔
دوسرا نکتہ یہ کہ علامہ اقبال کی کتاب ضربِ کلیم کی ایک نظم "قوت اور دین" میں تریاک مستعمل ملتا ہے۔ اس پر ایک نظر فرماٸیے گا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
گو خاک بناتی ہے تجھے دوریِ ادراک۔
اگر یوں مراد لی ہے تو پھر یہاں ادراک کی دوری نہیں بلکہ ادراک کی کمزوری کا محل ہے سو اسی لیے سو اسی مصرع پیوستہ نہیں لگا۔
تریاک جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کئی اور جگہوں پر بھی دیکھا ہے لیکن چونکہ آج اصل عربی قاموس (المعانی) میں دیکھا تو تریاق ہی ملا ۔اسی لیے یہی درست لگا۔

تِرياق: (اسم)
  • التِّرْياق : ما يضاد عمل السَّم (جو زہر کے اثر کا تدارک کرے)
 

اسد امین

محفلین
اگر یوں مراد لی ہے تو پھر یہاں ادراک کی دوری نہیں بلکہ ادراک کی کمزوری کا محل ہے سو اسی لیے سو اسی مصرع پیوستہ نہیں لگا۔
تریاک جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کئی اور جگہوں پر بھی دیکھا ہے لیکن چونکہ آج اصل عربی قاموس (المعانی) میں دیکھا تو تریاق ہی ملا ۔اسی لیے یہی درست لگا۔

تِرياق: (اسم)
  • التِّرْياق : ما يضاد عمل السَّم (جو زہر کے اثر کا تدارک کرے)
سر! میں نے یہاں ادراک کی کمزوری کو بیان نہیں کیا۔ بلکہ میرا مطلب ہے کہ انسان کے پاس واحد چیز ہے جو باقی مخلوق کے پاس نہیں۔ وہ ہے عقل۔ عقل کے بغیر انسان بھی محض ایک مٹی کا پتلا ہے۔
 

اسد امین

محفلین
اگر یوں مراد لی ہے تو پھر یہاں ادراک کی دوری نہیں بلکہ ادراک کی کمزوری کا محل ہے سو اسی لیے سو اسی مصرع پیوستہ نہیں لگا۔
تریاک جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کئی اور جگہوں پر بھی دیکھا ہے لیکن چونکہ آج اصل عربی قاموس (المعانی) میں دیکھا تو تریاق ہی ملا ۔اسی لیے یہی درست لگا۔

تِرياق: (اسم)
  • التِّرْياق : ما يضاد عمل السَّم (جو زہر کے اثر کا تدارک کرے)
سر! میں نے یہاں ادراک کی کمزوری کو بیان نہیں کیا۔ بلکہ میرا مطلب ہے کہ انسان کے پاس واحد چیز ہے جو باقی مخلوق کے پاس نہیں۔ وہ ہے عقل۔ عقل کے بغیر انسان بھی محض ایک مٹی کا پتلا ہے۔
 
اگر یوں مراد لی ہے تو پھر یہاں ادراک کی دوری نہیں بلکہ ادراک کی کمزوری کا محل ہے سو اسی لیے سو اسی مصرع پیوستہ نہیں لگا۔
تریاک جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کئی اور جگہوں پر بھی دیکھا ہے لیکن چونکہ آج اصل عربی قاموس (المعانی) میں دیکھا تو تریاق ہی ملا ۔اسی لیے یہی درست لگا۔

تِرياق: (اسم)
  • التِّرْياق : ما يضاد عمل السَّم (جو زہر کے اثر کا تدارک کرے)
اردو لغت - Urdu Lughat - مہرۂ تریاک
 

سید عاطف علی

لائبریرین
سر! میں نے یہاں ادراک کی کمزوری کو بیان نہیں کیا۔ بلکہ میرا مطلب ہے کہ انسان کے پاس واحد چیز ہے جو باقی مخلوق کے پاس نہیں۔ وہ ہے عقل۔ عقل کے بغیر انسان بھی محض ایک مٹی کا پتلا ہے۔
درست خیال ہے لیکن مجھے تو ذاتی طور پر یہ محسوس ہوا کہ یہ شعری بیان اس خیال کو اچھی طرح سمیٹ نہیں پایا ۔ یہ بات دوریِ ادراک اور خاک میں کچھ الجھ سی گئی ۔
 

اسد امین

محفلین
شا عری اگر کسی کے متعین رنگ میں کی جائے خصوصا اقبال کے تو اقبال کے ہاں استعمال شدہ تشبیہات اور استعارات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جو کلام اقبال میں اتنی کثرت سے مستعمل ہیں ہیں کہ گویا وہ شاعرانہ تشبیہات و استعارات نہیں بلکہ اقبال کی اصطلاحات کہلاتی ہیں وہ ہر جگہ کرمک شمع خاک و نور خودی وبےخودی عشق و عقل سے ایسی مراد لیتے ہیں جو انکا کلام ہی متعین کرتا ہے ۔ ایسے میں کسی شاعر کے تتبع کا رنگ نئے شاعر کی اپنی تخلیق پر ایک سوال بن جاتا ہے ۔
مندرجہ بالا غزل میں کئی جگہ اسلوب بیان غیر واضح ہے جیسا کہ مطلع میں دیکھا جاسکتا ہے ۔
"اگر چہ خاک تجھے دوریِ ادراک بناتی ہے "
"خاک کا کسی کو دوری بنا دینا" ایک غیرواضح اور بنا بریں بے معنی تصور پیش کرتا ہے ۔دوسرے مصرع میں اس کا جواب دیا گیا ہے لیکن سوال ہی عجز بیان میں الجھ گیا تو جواب کا لطف جاتا رہا ۔
اسی طرح آخری شعر بھی عجز بیان سے بے معنی سا ہوگیا کہ "بو قلمونی کسی کو نازاں " کس طرح ہو سکتی ہے؟ اور شاعر نے کیا مراد لینی چاہی ہے ۔
لفظی اور عروضی لحاظ سے تو کچھ قابل ذکر بات نہیں ۔البتہ معنی اور اسلوب پر نظر ثانی کی جانی چاہیئے ۔
تریاق کا صحیح تلفظ تو یہی ہے ،تریاک نہیں ۔
سر! اگر نازاں کی جگہ خوباں آ جاٸے تو مناسب رہے گا؟
"اب تک تجھے خوباں رہی یہ بو قلمونی"
 

سید عاطف علی

لائبریرین
سر! خلاصہ بتا دیا جاٸے کہ تریاک کو تبدیل کر دیا جاٸے یا رہنے دیا جاٸے؟
میری رائے میں تو رہنے دیں۔
جب کئی اور جگہ مثلاََ میر و غالب کے ہاں بھی ملتا ہے ۔(تریاکی ِ قدیم ہوں دود چراغ کا ۔غالب) تو رہنے دیں ۔
ایسا لگ رہا ہے کہ میر کے ہاں تریاک نشہ آور پھول کے معنی میں استعمال ہوا ، سو عین ممکن ہے کہ تریاک اور تریاق الگ بھی ہوں مجھے تو یہ اندازہ بھی ہوا ۔ آصفیہ کی بنیاد پر تو کہہ سکتے ہیں کہ جائز ہے ۔ باقی آپ کی صوابدید۔
 
Top