برائے اصلاح

محمل ابراہیم

لائبریرین
الف عین سید عاطف علی شکیل احمد خان23 محمد احسن سمیع راحلؔ و دیگر اساتذہ کرام۔۔۔۔۔۔۔۔

السلام علیکم

آپ کی اصلاح و رہنمائی کی درخواست گزار ہوں ۔


تنہا تنہا فکر میں گم صم،گھنٹوں بیٹھی رہتی ہُوں
کسی خیالی دنیا کے میں سپنے بنتی رہتی ہوں

کیا کچھ کھویا کیا ہے پایا،کون رکھے اب اتنا یاد
ہر اک آن میں اپنے دل کی دھڑکن گنتی رہتی ہُوں

کہتی تھیں دادی یہ کبھی کہ تم تو پریوں جیسی ہو
دیکھ کر آئینے میں خود کو،میں اب ہنستی رہتی ہُوں

اپنا قصہ کیا میں چھیڑوں،دیوانی سمجھیں گے لوگ
پاؤں زمیں پر رکھ کر کے میں ہوا میں اُڑتی رہتی ہوں

تیکھی کڑوی باتیں کہہ کر،اپنے زخمی کرتے ہیں
خوب تحمل سے میں پھر بھی سب کو سنتی رہتی ہُوں

سحؔر! یہ دنیا کب اپنی تھی؟تم تو بیجا کڑھتی ہو
دل کے اس سمجھانے پر بھی اکثر روتی رہتی ہوں
 
تیکھی کڑوی باتیں کہہ کر،اپنے زخمی کرتے ہیں
خوب تحمل سے میں پھر بھی سب کو سنتی رہتی ہُوں
اپنے ہی دل میرا اپنی باتوں سے کرتے ہیں مجروح/اپنے ہی دل میرا اپنی باتوں سے جب توڑتے ہیں
خوب مگر برداشت سے اُن کو پھر بھی سب کو سنتی رہتی ہوں/خوب تحمل سے میں اُن کو پھر بھی سنتی رہتی ہوں
 
آخری تدوین:

محمل ابراہیم

لائبریرین
اپنے ہی دل میرا اپنی باتوں سے کرتے ہیں مجروح/اپنے ہی دل میرا اپنی باتوں سے جب توڑتے ہیں
خوب مگر برداشت سے اُن کو پھر بھی سب کو سنتی رہتی ہوں/خوب تحمل سے میں اُن کو پھر بھی سنتی رہتی ہوں
خوب مگر برداشت سے پھر بھی سب کو سنتی رہتی ہُوں۔۔۔۔۔۔سر یہ تو نہیں کہہ رہے تھے آپ؟؟
 
تنہا تنہا فکر میں گم صم،گھنٹوں بیٹھی رہتی ہُوں
کسی خیالی دنیا کے میں سپنے بنتی رہتی ہوں
کسی کے بجائے ایک کر دیں تو زیادہ بہتر رہے گا.

کیا کچھ کھویا کیا ہے پایا،کون رکھے اب اتنا یاد
ہر اک آن میں اپنے دل کی دھڑکن گنتی رہتی ہُوں
میرے خیال میں یا تو کھویا سے پہلے بھی ہے کر دیں، یا پایا سے پہلے بھی کچھ ... ہر اک آن کے بجائے ہر پل کہہ دیں تو اک جو یہاں زائد ہے، اس سے خلاصی ہو جائے گا ... مزید یہ کہ دل کی دھڑکن کے بجائے سانسیں گننا کہیں تو بہتر ابلاغ ہو سکے گا. مثلا
میں تو ہر پل بس اب اپنی سانسیں گنتی رہتی ہوں.

کہتی تھیں دادی یہ کبھی کہ تم تو پریوں جیسی ہو
دیکھ کر آئینے میں خود کو،میں اب ہنستی رہتی ہُوں
شکیل بھائی کا مشورہ صائب ہے، ویسے میری رائے میں دوسرے مصرعے کو یوں بھی برقرار رکھ سکتی ہیں.

اپنا قصہ کیا میں چھیڑوں،دیوانی سمجھیں گے لوگ
پاؤں زمیں پر رکھ کر کے میں ہوا میں اُڑتی رہتی ہوں
رکھ کر کے میرے خیال میں غیر فصیح ہے. شکیل بھائی کی تجویز مناسب ہے.
خوب مگر برداشت سے پھر بھی اُن کی سنتی رہتی ہوں
سب کی زیادہ بہتر رہے گا میرے خیال میں.
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
کسی کے بجائے ایک کر دیں تو زیادہ بہتر رہے گا.


میرے خیال میں یا تو کھویا سے پہلے بھی ہے کر دیں، یا پایا سے پہلے بھی کچھ ... ہر اک آن کے بجائے ہر پل کہہ دیں تو اک جو یہاں زائد ہے، اس سے خلاصی ہو جائے گا ... مزید یہ کہ دل کی دھڑکن کے بجائے سانسیں گننا کہیں تو بہتر ابلاغ ہو سکے گا. مثلا
میں تو ہر پل بس اب اپنی سانسیں گنتی رہتی ہوں.


شکیل بھائی کا مشورہ صائب ہے، ویسے میری رائے میں دوسرے مصرعے کو یوں بھی برقرار رکھ سکتی ہیں.


رکھ کر کے میرے خیال میں غیر فصیح ہے. شکیل بھائی کی تجویز مناسب ہے.

سب کی زیادہ بہتر رہے گا میرے خیال میں.
بہت شکریہ سر
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
تنہا تنہا فکر میں گم صم،گھنٹوں بیٹھی رہتی ہُوں
کسی خیالی دنیا کے میں سپنے بنتی رہتی ہوں

کسی کے بجائے ایک کر دیں تو زیادہ بہتر رہے گا.

یہ میں نے بھی سوچا تھا ۔۔۔۔۔😊
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
اصلاح کے بعد۔۔۔۔۔۔۔۔


تنہا تنہا فکر میں گم صم،گھنٹوں بیٹھی رہتی ہُوں
ایک خیالی دنیا کے میں سپنے بنتی رہتی ہوں

کیا ہےکھویا کیا ہے پایا،کون رکھے اب اتنا یاد
میں تو بس اب ہر پل اپنی سانسیں گنتی رہتی ہوں

کہتی تھیں یہ دادی اماں تم تو پریوں جیسی ہو
دیکھ کر آئینے میں خود کو،میں اب ہنستی رہتی ہُوں

اپنا قصہ کیا میں چھیڑوں دیوانی سمجھیں گے لوگ
رہتی ہوں دھرتی پر لیکن ہوا میں اُڑتی رہتی ہوں

اپنے ہی دل میرا اپنی باتوں سے جب توڑتے ہیں
خوب مگر برداشت سے پھر بھی سب کی سنتی رہتی ہوں

سؔحر یہ دنیا کب ہے کسی کی تم کیوں اتنا کُڑھتی ہو
دِل کو یہ سمجھا سمجھا کر اکثر روتی رہتی ہوں
 

الف عین

لائبریرین
مجھے یہ خیال آتا ہے کہ کم از کم ایک شعر مزید ہو جس سکا قافیہ "تی" کے علاوہ ہو، جیسے فی الحال مطلع کا "بیٹھی" ہے۔ ورنہ محسوس یہی ہوتا ہے کہ پوری غزل میں کسی عروضی نے اعتراض کیا کہ قا فیہ غلط ہے، تو جلدی سے مطلع میں ایک قافیہ مختلف کر دیا تاکہ یہ اعتراض نہ رہے۔ ویسے راحل کی اصلاح بہت اچھی ہے اور شکیل کی بھی
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
مجھے یہ خیال آتا ہے کہ کم از کم ایک شعر مزید ہو جس سکا قافیہ "تی" کے علاوہ ہو، جیسے فی الحال مطلع کا "بیٹھی" ہے۔ ورنہ محسوس یہی ہوتا ہے کہ پوری غزل میں کسی عروضی نے اعتراض کیا کہ قا فیہ غلط ہے، تو جلدی سے مطلع میں ایک قافیہ مختلف کر دیا تاکہ یہ اعتراض نہ رہے۔ ویسے راحل کی اصلاح بہت اچھی ہے اور شکیل کی بھی
جی بہتر سر بہت شکریہ
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
اصلاح کے بعد۔۔۔۔۔۔۔۔


تنہا تنہا فکر میں گم صم،گھنٹوں بیٹھی رہتی ہُوں
ایک خیالی دنیا کے میں سپنے بنتی رہتی ہوں

کیا ہےکھویا کیا ہے پایا،کون رکھے اب اتنا یاد
میں تو بس اب ہر پل اپنی سانسیں گنتی رہتی ہوں

کہتی تھیں یہ دادی اماں تم تو پریوں جیسی ہو
دیکھ کر آئینے میں خود کو،میں اب ہنستی رہتی ہُوں

اپنا قصہ کیا میں چھیڑوں دیوانی سمجھیں گے لوگ
رہتی ہوں دھرتی پر لیکن ہوا میں اُڑتی رہتی ہوں

اپنے ہی دل میرا اپنی باتوں سے جب توڑتے ہیں
خوب مگر برداشت سے پھر بھی سب کی سنتی رہتی ہوں

سؔحر یہ دنیا کب ہے کسی کی تم کیوں اتنا کُڑھتی ہو
دِل کو یہ سمجھا سمجھا کر اکثر روتی رہتی ہوں
ماشاءاللہ، اچھی غزل ہے۔
 
Top