برائے اصلاح

موسم آیا فصل گل کا
چل ! کہ چلیں ہم سوئے صحرا

آیا جھونکا مست ہوا کا
چھو کے کوئی پھول شگفتہ
شعلہِ وحشت پھر بھڑکے گا
( دور چلے گا، پھر وحشت کا)
چاک گریباں ہو گا اپنا
چل ! کہ چلیں ہم سوئے صحرا


یاد تمھاری، خواب تمھارے
اور سوا کیا پاس ہمارے
رات گزاری گن کے تارے
دن صحرا گردی میں گزارا
چل! کہ چلیں ہم سوئے صحرا


شام اداسی، صبح اداسی
عمر گزاری ،ہجر میں ساری
صحرا گردی،دشت نوردی
اور علاجِ تنہائی کیا
چل ! کہ چلیں ہم سوئے صحرا

گیت سریلے بلبل گائے
خواب سہانے یاد دلائے
فصلِ گل نے پھر سے جگائے
دل میں ارماں،سر میں سودا
چل !کہ چلیں ہم سوئے صحرا
 
آخری تدوین:
الف عین صاحب: کیا آپ کو مثلث، مربع ، مخمس، مسدس کی شناخت بھی نہیں ہے جو آپ یہ سوال کر رہے ہیں؟ اللہ اکبر!
اصل میں یہ نظم میں نے اصلاح کی غرض سے لگائی ہے۔
مثلث کا میں نے ایسے ہی پوچھ لیا۔
کبھی مثلث لکھی نہیں ہے اس لیے ۔

تبدیلی کر دی ہے سوال میں۔
 

ارشد رشید

محفلین
چل کے چلیں ہم سوئے صحرا
آئی کے عمران صاحب - اس کلام کی اصلاح تو اس محفل کے اساتذہ ہی کریں گے میں آپ کی توجہ صرف آپ کے ٹیپ کے مصرعے کی طرف دلانا چاہتا ہوں
چل کے چلیں ہم سوئے صحرا = چل کے چلیں کا مطلب ہوا پیدل چلیں
آپ کو کہنا ہے
چل ! کہ چلیں ہم سوئے صحرا
یعنی آپ کسی سے کہہ رہے ہیں کہ آؤ چلیں ہم صحرا کی طرف -
 
اصل میں یہ نظم میں نے اصلاح کی غرض سے لگائی ہے۔
مثلث کا میں نے ایسے ہی پوچھ لیا۔
کبھی مثلث لکھی نہیں ہے اس لیے ۔

تبدیلی کر دی ہے سوال میں۔
یہ عبارت میری غلطی سے یہاں لگ گئی ہے او ر میں اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ مستقبل میں اور محتاط رہوں گا۔ الف عین صاحب سے خصوصی معذرت!
 
یہ عبارت میری غلطی سے یہاں لگ گئی ہے او ر میں اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ مستقبل میں اور محتاط رہوں گا۔ الف عین صاحب سے خصوصی معذرت!
معذرت کی کوئی بات نہیں سر۔
اردو انجمن میں آپ سے بہت کچھ سیکھا تھا ۔
آپ کو یہاں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ۔
 
آئی کے عمران صاحب - اس کلام کی اصلاح تو اس محفل کے اساتذہ ہی کریں گے میں آپ کی توجہ صرف آپ کے ٹیپ کے مصرعے کی طرف دلانا چاہتا ہوں
چل کے چلیں ہم سوئے صحرا = چل کے چلیں کا مطلب ہوا پیدل چلیں
آپ کو کہنا ہے
چل ! کہ چلیں ہم سوئے صحرا
یعنی آپ کسی سے کہہ رہے ہیں کہ آؤ چلیں ہم صحرا کی طرف -
آپ کی بات درست ہے ۔
بہت بہت شکریہ۔

باقی اشعار پر بھی آپ اپنی رائے دے سکتے ہیں۔

بہت نوازش۔
 

الف عین

لائبریرین
سرور بھائی کو کچھ غلط فہمی ہو گئی تھی، اس پر تو میری طرف سے کسی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے، لیکن یہ میں اکثر کہتا اور لکھتا آیا ہوں کہ میں عروض سے واقف نہیں، اور محض اپنے والد مرحوم صادق اندوری کے طریقۂ اصلاح سے جو کچھ سیکھا ہے، اسی کی بنا پر یہاں کے مبتدیوں کے کچھ کلام پر اصلاح دینی شروع کی تو بس، اب یہ کام میرے ذمے ہی لگ گیا ہے جیسے! ورنہ من آنم کہ من دانم
 

ارشد رشید

محفلین
آپ کی بات درست ہے ۔
بہت بہت شکریہ۔

باقی اشعار پر بھی آپ اپنی رائے دے سکتے ہیں۔

بہت نوازش۔
آئی کے عمران صاحب - میری رائے آپ کو پسند نہیں آئیگئ
نظم کی جمالیات پر تو تبصرہ آگے کی بات ہے ابھی آپ کی نظم کی زبان درست ہو نا باقی ہے
موسم آیا فصل گل کا = فصل گل کا مطب ہوتا ہے پھولوں کا موسم یعنی آپ کہہ رہے ہیں موسم آیا پھولوں کے موسم کا؟

اور سوا کیا پاس ہمارے = اور سوا کیا ہوتا ہے ؟ یا تو ہوتا ہے اس کے سوا یا ہوتا ہے سوائے اس کے
رات گزاری گن کے تارے = گن کے تارے نہیں کہیں گے آپ کو کہنا ہوگا گن گن تارے
دن صحرا گردی میں گزارا
چل! کہ چلیں ہم سوئے صحرا = جب آپ دن بھر صحرا ہی میں تھے تو اب کس کو کہہ رہے ہیں اب واپس صحرا چلیں؟ کیا دوپہر کو واپس آ گئے تھے؟

شام اداسی، صبح اداسی
عمر گزاری ،ہجر میں ساری
صحرا گردی،دشت نوردی
اور علاجِ تنہائی کیا
چل ! کہ چلیں ہم سوئے صحرا

جب آپ کہہ ہی چکے ہیں صحرا گردی میں میں عمر گزاری ہے وہی علاجَ تنہائی ہے تو اب پھر یہ کیوں کہیں گے چل کہ چلیں ہم سوئے صحرا ؟

گیت سریلے بلبل گائے
خواب سہانے یاد دلائے
فصلِ گل نے پھر سے جگائے
دل میں ارماں،سر میں سودا
== ٍ فصلِ گل نے پھر سے جگائے ارمان تو یہ جمع کا صیغہ ہوا ہے اس کے ساتھ سودا واحد کیسے جگے گا ؟ یا تو ہوتا فصلِ گل نے پھر سے جگایا -

میری رائے میں آپ پہلے اردو صحیح کریں پھر اپنی بکھروں سوچوں کو سمیٹیں پھر آئیے کہ اسے خوبصورت کیسے بنا یا جائے
 

الف عین

لائبریرین
اب مزید تبصرے کی ضرورت نہیں ہے، کچھ باتیں جو میں کہنے والا تھا، بھائی ارشد رشید نے لکھ دی ہیں۔
مزید یہ بھی زبان و بیان کی غلطی ہے کہ ٹیپ کے مصرعے میں "چل" کہا جائے، اور باقی مصرعوں میں تم تخاطب کی مناسبت سے آؤ، چلو کہا جائے
پھر ایک بڑی غلطی یہ بھی ہے کہ صحرا سے مراد ہرا بھرا جنگل نہیں لیا جاتا، صحرا بیابان ہوتا ہے عموماً، یہاں تو یہ اس طرح کہا جا رہا ہے جیسے ہرا بھرا باغ ہو جہاں ہر خوشی کا سامان موجود ہو
اور ایک اہم بات یہ اس طرح ٹیپ کے مصرعے والی نظمیں آج کل نہیں کہی جاتیں۔ اگر کوئی کہے بھی تو کوئی ادبی رسالہ شاید ہی قبول کرے! بہتر ہےکہ آزاد نظم میں آسانی سے، بغیر بھرتی کے مصرعوں کے، بغیر قوافی کی مجبوری کے، یہی خیال ظاہر کیا جائے
 

الف عین

لائبریرین
مزید یہ کہ اس پر مثلث کا شک کیوں ہوا؟ یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔ حالانکہ اب یہ پیغام تدوین کر دیا ہے لیکن مقتبس تو ہو چکا نا! اس لئے مجھے پتہ چلا!
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
یہ عبارت میری غلطی سے یہاں لگ گئی ہے او ر میں اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ مستقبل میں اور محتاط رہوں گا۔ الف عین صاحب سے خصوصی معذرت!
الف عین صاحب۔۔۔ میری رائے میں وہ عبارت جو سرور عالم راز صاحب کی غلطی کے باعث یہاں لگی تھی، شاید اس میں کسی مثلث کا ذکر تھا۔۔۔ اور مثلث کا آئی کے عمران نے بھی ایسے ہی پوچھ لیا تھا۔۔ شاید اس لیے مثلث کے شک والی بات سامنے آئی ہو ۔۔۔
 
سرور بھائی کو کچھ غلط فہمی ہو گئی تھی، اس پر تو میری طرف سے کسی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے، لیکن یہ میں اکثر کہتا اور لکھتا آیا ہوں کہ میں عروض سے واقف نہیں، اور محض اپنے والد مرحوم صادق اندوری کے طریقۂ اصلاح سے جو کچھ سیکھا ہے، اسی کی بنا پر یہاں کے مبتدیوں کے کچھ کلام پر اصلاح دینی شروع کی تو بس، اب یہ کام میرے ذمے ہی لگ گیا ہے جیسے! ورنہ من آنم کہ من دانم
آپ سے بہت کچھ سیکھا ہے سر۔
اس طرح رہنمائی کرتے رہیے گا۔
جزاک اللہ
سلامت رہیں
 
آخری تدوین:
آئی کے عمران صاحب - میری رائے آپ کو پسند نہیں آئیگئ
نظم کی جمالیات پر تو تبصرہ آگے کی بات ہے ابھی آپ کی نظم کی زبان درست ہو نا باقی ہے
موسم آیا فصل گل کا = فصل گل کا مطب ہوتا ہے پھولوں کا موسم یعنی آپ کہہ رہے ہیں موسم آیا پھولوں کے موسم کا؟

اور سوا کیا پاس ہمارے = اور سوا کیا ہوتا ہے ؟ یا تو ہوتا ہے اس کے سوا یا ہوتا ہے سوائے اس کے
رات گزاری گن کے تارے = گن کے تارے نہیں کہیں گے آپ کو کہنا ہوگا گن گن تارے
دن صحرا گردی میں گزارا
چل! کہ چلیں ہم سوئے صحرا = جب آپ دن بھر صحرا ہی میں تھے تو اب کس کو کہہ رہے ہیں اب واپس صحرا چلیں؟ کیا دوپہر کو واپس آ گئے تھے؟

شام اداسی، صبح اداسی
عمر گزاری ،ہجر میں ساری
صحرا گردی،دشت نوردی
اور علاجِ تنہائی کیا
چل ! کہ چلیں ہم سوئے صحرا

جب آپ کہہ ہی چکے ہیں صحرا گردی میں میں عمر گزاری ہے وہی علاجَ تنہائی ہے تو اب پھر یہ کیوں کہیں گے چل کہ چلیں ہم سوئے صحرا ؟

گیت سریلے بلبل گائے
خواب سہانے یاد دلائے
فصلِ گل نے پھر سے جگائے
دل میں ارماں،سر میں سودا
== ٍ فصلِ گل نے پھر سے جگائے ارمان تو یہ جمع کا صیغہ ہوا ہے اس کے ساتھ سودا واحد کیسے جگے گا ؟ یا تو ہوتا فصلِ گل نے پھر سے جگایا -

میری رائے میں آپ پہلے اردو صحیح کریں پھر اپنی بکھروں سوچوں کو سمیٹیں پھر آئیے کہ اسے خوبصورت کیسے بنا یا جائے
بہت شکریہ بہت شکریہ

آپ کی تمام باتیں درست ہیں لکھتے وقت مجھے بھی محسوس ہوئی تھیں۔

موسم آیا فصل گل کا۔۔۔۔۔۔

اس پر میں ایک نظم پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔


محترمی
الف عین
اور بھی چند لوگو ں نے اسے درست قرار دیا تھا۔
کچھ کا اعتراض بھی تھا۔

کیوں درست قرار دیا تھا مجھے بھی علم نہیں ہے۔


چل! کہ چلیں ہم سوئے صحرا
اس کا تکرار اگر ختم کردوں تو کافی حد تک مسئلہ حل ہو جائے گا۔
آپ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔

آپ کی تمام باتیں پسند آئیں ۔خوشی ہوئی کہ آپ نے تفصیل سے اپنی رائے دی۔
امید ہے آپ اسی طرح رہنمائی کرتے رہیں گے۔
جزاک اللہ
سلامت رہیں۔
 
آخری تدوین:
اب مزید تبصرے کی ضرورت نہیں ہے، کچھ باتیں جو میں کہنے والا تھا، بھائی ارشد رشید نے لکھ دی ہیں۔
مزید یہ بھی زبان و بیان کی غلطی ہے کہ ٹیپ کے مصرعے میں "چل" کہا جائے، اور باقی مصرعوں میں تم تخاطب کی مناسبت سے آؤ، چلو کہا جائے
پھر ایک بڑی غلطی یہ بھی ہے کہ صحرا سے مراد ہرا بھرا جنگل نہیں لیا جاتا، صحرا بیابان ہوتا ہے عموماً، یہاں تو یہ اس طرح کہا جا رہا ہے جیسے ہرا بھرا باغ ہو جہاں ہر خوشی کا سامان موجود ہو
اور ایک اہم بات یہ اس طرح ٹیپ کے مصرعے والی نظمیں آج کل نہیں کہی جاتیں۔ اگر کوئی کہے بھی تو کوئی ادبی رسالہ شاید ہی قبول کرے! بہتر ہےکہ آزاد نظم میں آسانی سے، بغیر بھرتی کے مصرعوں کے، بغیر قوافی کی مجبوری کے، یہی خیال ظاہر کیا جائے

بہت بہت شکریہ سر
بہت نوازش
یہ نظم بہت عرصہ پہلے لکھی تھی۔۔۔۔
کل کہیں سے ملی تو سوچا کہ اصلاح لے لوں کچھ نہ کچھ سیکھنے کو مل جائے گا۔


موسم آیا فصل گل کا


اس بارے میں رہنمائی کیجیے گا کچھ کے نزدیک یہ غلط ہے کچھ کے نزدیک درست۔۔۔
اس مصرع پر میں ایک نظم پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔

یہاں بہت پہلے پیش کر چکا ہوں۔
 

ارشد رشید

محفلین
اور ایک اہم بات یہ اس طرح ٹیپ کے مصرعے والی نظمیں آج کل نہیں کہی جاتیں
جناب اعجاز عبید صاحب - اس پر ذرا روشنی ڈالیئے گا یہ اگر کوی نیا ٹرینڈ ہے تو میرے علم میں نہیں ہے - اس بارے میں مزید رہنمائی فرمائیں ایسا کب ہوا ؟
 
Top