برائے اصلاح

یہ جو پیڑوں کی چھتری ہے
دیکھو تو کتنی اچھی ہے

ایسا سکوں ہے اس کے نیچے
بیٹھا ہوں میں آنکھیں میچے

ایسے ہوا سے ڈول رہے ہیں
پتے پنکھا جھول رہے ہیں

بول پرندے بول رہے ہیں
رس کانوں میں گھول رہے ہیں

پیڑ خدا کی خاص عطا ہیں
ان کے فوائدحد سے سوا ہیں

سانس سکوں کا ہم لیتے ہیں
ان کے دم سے دم لیتے ہیں

ان سے لطف اٹھانا تم بھی
بچو پیڑ اگانا تم بھی
 

الف عین

لائبریرین
بس یہ اشعار غلط لگ رہے ہیں
ایسے ہوا سے ڈول رہے ہیں
پتے پنکھا جھول رہے ہیں
پنکھا جھولنا فعل سے میں نا واقف ہوں ۔ ویسے جھولا، جھولا میں واو معروف، الٹے پیش والی ہے۔ ڈول میں مجہول ہے، بول گھول تول کا قافیہ ۔ قافئے بھی غلط ہیں
بول پرندے بول رہے ہیں
رس کانوں میں گھول رہے ہیں
بول پرندے بول... درست محاورہ نہیں،
ایسے پرندے بول رہے ہیں
سے بات واضح ہو جاتی ہے۔ میری تجویز میں یہ شعر رکھو، اوپر والا نکال دو۔ باقی نظم خوب ہے
 
آخری تدوین:
بس یہ اشعار غلط لگ رہے ہیں

پنکھا جھولنا فعل سے میں نا واقف ہوں ۔ ویسے جھولا، جھولا میں واو معروف، الٹے پیش والی ہے۔ ڈول میں مجہول ہے، بول گھول تول کا قافیہ ۔ قافئے بھی غلط ہیں

بول پر در بول... درست محاورہ نہیں،
ایسے پرندے بول رہے ہیں
سے بات واضح ہو جاتی ہے۔ میری تجویز میں یہ شعر رکھو، اوپر والا نکال دو۔ باقی نظم خوب ہے
بہت بہت شکریہ
بہت نوازش
جزاک اللہ
 

ضیاء حیدری

محفلین
برائے اصلاح
یہ سب جی کا بہلاوہ ہے، بوسیدہ پیراہن کہیں سلتا ہے
یہ دل کی اک تسلی ہے، زخم تو اندر ہی جلتا ہے

جو کل تھا مسندِ شاہی پہ، آج کوئی نہیں جانتا
وقت کا یہ اصول ہے، ہر چمکتا ستارہ ڈھلتا ہے

محبتوں کا سفر ہو یا دنیا کی دوڑ ہو
کچھ بھی رہے نہ باقی، سب آنکھوں سے چھلکتا ہے

دھوکا ہے یہ خوشیوں کا، امید کا جھوٹا سراب
جو ساتھ چل رہا ہے، وہ لمحہ بھی بدلتا ہے

یہ رات بھی گزر جائے گی، اور خواب بھی چپ ہو جائیں گے
آخر میں دل کی ویرانی ہی اندر سے کُڑتا ہے
 
Top