برائے اصلاح

ضیاء حیدری

محفلین
کمرِ ہمت دم توڑ جائے، پھر درِ دُعا بند نہیں
دل پہ لاکھوں برق گریں پر رشتۂ وفا بند نہیں

وقت کے ہر زخم نے آ کر، اک سبق ہی دے ڈالا
درد کی تنہائی میں بھی، شورِ مدعا بند نہیں

ہم نے خود کو خاک کیا، تو راز کچھ یوں پا لیا
عشق میں جو خامشی ہے، وہ بھی بے صدا بند نہیں

شوق کا یہ کاررواں ہے، راہ میں رک جائے کیوں؟
دل اگر ٹوٹا بھی جائے، شوقِ انتہا بند نہیں

زخم کھا کر بھی "ضیا" ہر بار ہم یہ کہتے ہیں
بند ہو سکتا ہے رستہ، در مگر خدا بند نہیں
 
Top