برائے اصلاح


جب کبھی یاد مُجھے آئے کہانی تیری
رات بھر آنکھ سے رستا رہے پانی میری

میں نے یہ سوچ کہ ہر دُکھ کو لگایا دِل سے
یہ محبت کی عنایت ،،یہ نشانی تیری

کون جانے کہ بسر ہوگی کہاں عمرِ رواں
دشتِ تنہائی میں کٹی جائے جوانی میری

روز شب آس یہی دِل کو میرے دیتی ہے فریب
خواب بن کر کہ چلی آئے گی شکل سہانی تیری

آج کی شب بھی تخیل میں تیرے ہوگی بسر
دل مُضطر نے کبھی بات نہ مانی میری

سلمان انصاری 1/13/14
 

طارق شاہ

محفلین
جب کبھی یاد مُجھے آئے کہانی تیری
اچھی کوشش ہے لیکن ذوالقافیہ ہونا ، معنی آفرینی پر قدرے پابندی کی وجہ بن گئی ہے
روایتی طرز پر مشق کریں اور پختہ ہونے پر ایسی غزلیں ہوں تو ٹھیک ہے
بہت خوش رہیں :):)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


دن ڈھلے جب کبھی یاد آئے کہانی تیری
رات بھر آنکھ سے بہتا رہے پانی میری

میں نے یہ سوچ کے ہردُکھ کو لگایا دِل سے
ہے محبت کی عنایت بھی ، نشانی تیری

کون جانے کہ بسر ہوگی کہاں عمرمزید
کٹتی اب دشت میں تنہا ہے جوانی میری


دل کی یہ آس مجھے روز ہی دیتی تھی فریب
ہے مجھے مِلنے کو اِک رات سُہانی تیری

آج کی شب بھی تخیّل میں تِرے ہوگی سحر
دلِ مُضطر نے کہاں بات ہے مانی میری

سلمان انصاری
 
آخری تدوین:
Top