بہنا جی آپ کا اعلی سخن بولتا ہے کہ آپ ہم لوگوں کی اصلاح فرمایا کریں۔
خُشی کی بجائے " خوشی" کیوں نہیں؟ جبکہ دونوں کا وزن ایک ہی ہے ؟
اب کہ میخانہ دل بنا میرا ۔ یہاں " اب کہ" کچھ جچا نہیں ۔۔۔۔سیدھا ہی " میکدہ بن گیا ہے دل میرا"
گلہ تقدیر کا کریں ہم کیا میں ہم اور کیا کی نشستیں ادل بدل کی جا سکتی ہیں
آزمائش کے سلسلے نئے ہیں ۔ کی بجائے" آزمائش کے سلسلے ہیں نئے " بہتر صورت لگتی ہے
اشک بہنے لگے جو بن کے خوں ۔۔۔ خون کی جگہ لہو بہتر رہے گا۔ (گنجائش ہو تو عِلن میں باندھا گیا اختتامی لفظ زیادہ متوازن تاثر چھوڑتا ہے)
( اس گستاخی کو اصلاح نہیں ایک مبتدی بھائی کا علمی استفسار سمجھیے گا)
اصلاح کا کام تو اعجاز صاحب کرتے ہیں۔ ہم تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ عمدہ کوشش ہے۔ جاری رکھیے۔
مراسلے کے آخر میں مشورہ ہی تو دیا تھا کہآپ چلیں مشورہ دے دیں میرے لیے تو اہم ہے ۔میں تو تک بندی کرتی رہتی ہوں ۔
جاری رکھیے۔
فاتح بھائی کوئی شک نہیں کہ جناب اعجاز عبید صاحب تو استاد الاساتذہ ہیں۔ لیکن سخن کے فروغ کیلیے ہم سب کو بھی اپنی اپنی بساط کے مطابق اپنا علم آگے بڑھانے کا بیڑا اٹھانا چاہیے۔یہی سب سے بڑا صدقہء جاریہ ہےاصلاح کا کام تو اعجاز صاحب کرتے ہیں۔ ہم تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ عمدہ کوشش ہے۔ تمام اشعار مکمل طور پر با وزن ہیں۔ جاری رکھیے۔
بہت شکریہ ۔۔۔ آپ کی اصلاح پر ممنون ہوں ۔۔ بہتر قوافی ہیں ۔نور بہنا تیسرے اور چوتھے اشعار کیلئے مرحلے اور آبلے کی بجائے ، " حادثے " اور " سانحے" کے قوافی بھی مدنظر رکھئے۔
واہہہہہ نور بہت خوب لاجوابزندگی میں خُوشی کی جستجو ہے
فاصلے ختم کیوں نہیں ہوتے
آزمائش کے سلسلے ہیں نئے
راستے ختم کیوں نہیں ہوتے
گلہ تقدیر کا کریں کیا ہم
حادثے ختم کیوں نہیں ہوتے
میکدہ بن گیا ہے دل میرا
سانحے ختم کیوں نہیں ہوتے
اشک بہنے لگے جو بن کے لہو
سلسلے ختم کیوں نہیں ہوتے
واہہہہہ نور بہت خوب لاجواب
نثر نگاروں میں اپنا بے انتہا نام کمانے کے بعد اب شاعری کے میدان میں بھی اپنا کمال کر رہی ہوں بہت خوب وہ کیا کہتے ہیں
اللہ حُسن دیتا ہے تو نزاکت آ ہی جاتی ہے
بی بی میں تو پہلے سے ہی آپ کو گرو مان چکی ہوں
بہت اچھی کوشش ہے نور ۔۔۔
اچھی کاوش کے لیے بہت سی داد نور
زندگی میں خُوشی کی جستجو ہے
فاصلے ختم کیوں نہیں ہوتے
میری رائے میں خوشی کی "تلاش" کی جاتی ہے جستجو نہیں!
آزمائش کے سلسلے ہیں نئے
راستے ختم کیوں نہیں ہوتے
گلہ تقدیر کا کریں کیا ہم
حادثے ختم کیوں نہیں ہوتے
میکدہ بن گیا ہے دل میرا
سانحے ختم کیوں نہیں ہوتے
سانحے کے بعد "دل" کے "میکدہ" بن جانے کا کچھ تُک سمجھ نہیں آیا۔
اشک بہنے لگے جو بن کے لہو
سلسلے ختم کیوں نہیں ہوتے
دونوں مصرعوں میں کچھ ربط کی کمی محسوس ہوتی ہے یا شاید میرا گمان ہے۔
اتنی اچھی اصلاح اور طریقہ اصلاح۔ کیا بات ہے ماشا اللہ۔بہنا جی آپ کا اعلی سخن بولتا ہے کہ آپ ہم لوگوں کی اصلاح فرمایا کریں۔
خُشی کی بجائے " خوشی" کیوں نہیں؟ جبکہ دونوں کا وزن ایک ہی ہے ؟
اب کہ میخانہ دل بنا میرا ۔ یہاں " اب کہ" کچھ جچا نہیں ۔۔۔۔سیدھا ہی " میکدہ بن گیا ہے دل میرا"
گلہ تقدیر کا کریں ہم کیا میں ہم اور کیا کی نشستیں ادل بدل کی جا سکتی ہیں
آزمائش کے سلسلے نئے ہیں ۔ کی بجائے" آزمائش کے سلسلے ہیں نئے " بہتر صورت لگتی ہے
اشک بہنے لگے جو بن کے خوں ۔۔۔ خون کی جگہ لہو بہتر رہے گا۔ (گنجائش ہو تو عِلن میں باندھا گیا اختتامی لفظ زیادہ متوازن تاثر چھوڑتا ہے)
( اس گستاخی کو اصلاح نہیں ایک مبتدی بھائی کا علمی استفسار سمجھیے گا)
نور تمہاری ایک باے بالکل پسند نہیں آئی۔۔پوچھو کیا؟
میں اکثر لکھتا رہتا ہوں کہ اصلاح سخن میں کوئی تخلیق جب اصلاح کے لئے ہی پوسٹ کی جاتی ہے تو مشوروں کے بعد کیا کیا ترمیمات قبول کی گئی ہیں، اس کا پتہ بھی چلنا چاہئے۔ یعنی اپنی پہلی پوسٹ کو مدون نہیں کرنا چاہئے۔ اصل شکل کا سب کو پتہ چلنا چاہئے تاکہ ہر اصلاح کا طالب مبتدی اس عمل سے سیکھ سکے۔
سعید میاں نے کچھ مصرعوں کو رواں کرنے کے درست مشورے دئے جن کو تم نے قبول کر لیا۔ ان دو اشعار میں مفہوم پر غور نہیں کیا جن کی کاشف نے نشان دہی کی ہے۔ میں اس سے بھی منتخب ہوں۔
میرے خیال میں خوشی کی جستجو بھی غلط تو نہیں ہے۔ ہاں اس لفظ کی ’و‘ کا اسقاط کانوں کو بھلا نہیں لگتا۔ اس لئے تلاش استعمال کر کے ہی مصرعے کو بدلا جا سکتا ہے۔
بہت خوب۔[/QUOTE
شکریہ
شکریہ ۔۔ معذرے جواب تاخیر سے ہوا ہے ۔۔۔ آپ کی بات قبول ہیں کاشف بھائی ایسا ہر گز مت سوچیں کہ میں اصلاح میں قبول نہیں کروں گی کسی بات کواچھی غزل ہے نور!
صحیح اصلاح تو اساتذہ ہی کرینگے۔ میں جو کچھ عرض کرونگا اسے آپ نظر انداز بھی کر سکتی ہیں۔
اپنی رائے اقتباس میں شامل کر دی ہے۔