برائے اصلاح

الف عین

لائبریرین
اضافت کے بعد ایک ہی لفظ ہو تو بہتر ہوتا ہے۔ محض کائناتِ خراب، ’خراب حالت‘ دو الفاظ کا مرکب ہے، خود مرکب لفظ نہیں۔
 

شکیب

محفلین
آگہی سانحہ ہے جس کو ہم
جام کی نذر کرتے رہتے ہیں
اس پر فورا کوئی اصلاح سمجھ نہیں آرہی، امید ہے آپ بہتر کر لیں گے۔
اگر آپ کا تخلص ”عباد“ ہے تو اسے مقطع کر سکتے ہیں
آگہی سانحہ ہے جس کو عباد
جام کی نذر کرتے رہتے ہیں
 

عباد اللہ

محفلین
اصلاح شدہ صورت
آپ جو یوں کھنچے سے رہتے ہیں
ہم بہت فکر کرتے رہتے ہیں
مرتے رہتے ہیں خواب آنکھوں میں
مقبرے دل میں بنتے رہتے ہیں​
کیا غضب ہے کہ ہر گھڑی من میں​
غم کے بادل برستے رہتے ہیں​
دل سا کافر کہیں نہیں موجود​
اور ہم اس کی سنتے رہتے ہیں​
ہے ازل سے یہ ارتقا کا مزاج​
نقش بنتے بگڑتے رہتے ہیں​
داد دیجے کہ اس خرابے میں​
ہم بصد شوق بستے رہتے ہیں​
خوبرو اک ذرا نہیں ہیں آپ​
ہم تو بس یوں ہی تکتے رہتے ہیں​
کائناتِ خراب حالت میں ( اسے بعد میں دیکھتا ہوں)​
لوگ کتنے بہکتے رہتے ہیں​
آج بھی شاعری کی صورت میں​
کچھ صحیفے اترتے رہتے ہیں​
ہاں یہی تو ہے عشق کا اعجاز
اشک موتی میں ڈھلتے رہتے ہیں
اکثر و بیش ہم سے سہل انگار​
خود ہی خود سے مکرتے رہتے ہیں​
قصد کرتے ہیں شہر کا اور پھر​
دشت کی سمت چلتے رہتے ہیں​
 

ابن رضا

لائبریرین
مبتدیانہ گزارش
ارے دوست میں نے تو عرض کردیا تھا سب پہلے۔ اب اپنے کلام کے ساتھ کچھ وقت گزاریں باربار پڑھیں سمجھیں تو غلطیاں خود بخود سامنے آتی جائیں گی اور شاعری نکھرتی جائے گی

اب مطلع میں اعلانیہ رعایت کے پیشِ نظر قوافی کسی حد تک قابلِ قبول تو ہیں مگر سب اشعار میں تے ہیں تے ہیں کی تکرار ایطا کی طرف واضح اشارہ کر رہی ہے۔ کیوں کہ رعایت کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ہر شعر میں لازمی طور پر رعایت استعمال کی جائے بلکہ یہ صرف مجبوری کی صورتوں کے لیے روا رکھتے ہیں۔

اشعار تو سبھی اچھے ہیں تاہم آپ اس کو اگر نظم کے ہیئت پر منتقل کر لیں تو زیادہ اچھا ہوگا۔

آج بھی شاعری کی صورت میں
کچھ صحیفے اترتے رہتے ہیں

کس پر اترتے رہتے ہیں؟ واضح نہیں ۔ آج بھی کی جگہ ہم پہ بھی کر لیں اگرچہ "بھی" بھرتی کا ہے​
 

الف عین

لائبریرین
نہیں @ابن رضا۔ صحیفے والا شعر درست ہے۔ عمومی انداز میں بات کہی گئی ہے، کہ اب بھی صحیفے اتر رہے ہیں حالانکہ ’اب کہیں کوئی صحیفہ نہیں آنے والا‘ اس لئے ‘بھی‘ بھی ضروری ہے، اور ’جچھ‘ بھی درست
 
Top