اصلاح شدہ صورت
آپ جو یوں کھنچے سے رہتے ہیں
ہم بہت فکر کرتے رہتے ہیں
مرتے رہتے ہیں خواب آنکھوں میں
مقبرے دل میں بنتے رہتے ہیں
کیا غضب ہے کہ ہر گھڑی من میں
غم کے بادل برستے رہتے ہیں
دل سا کافر کہیں نہیں موجود
اور ہم اس کی سنتے رہتے ہیں
ہے ازل سے یہ ارتقا کا مزاج
نقش بنتے بگڑتے رہتے ہیں
داد دیجے کہ اس خرابے میں
ہم بصد شوق بستے رہتے ہیں
خوبرو اک ذرا نہیں ہیں آپ
ہم تو بس یوں ہی تکتے رہتے ہیں
کائناتِ خراب حالت میں ( اسے بعد میں دیکھتا ہوں)
لوگ کتنے بہکتے رہتے ہیں
آج بھی شاعری کی صورت میں
کچھ صحیفے اترتے رہتے ہیں
ہاں یہی تو ہے عشق کا اعجاز
اشک موتی میں ڈھلتے رہتے ہیں
اکثر و بیش ہم سے سہل انگار
خود ہی خود سے مکرتے رہتے ہیں
قصد کرتے ہیں شہر کا اور پھر
دشت کی سمت چلتے رہتے ہیں