محمد فائق
محفلین
جو دل خوشیوں کا سرچشمہ رہا ہے
وہ درد و غم کا اب مسکن ہوا ہے
نہیں ہم درد اب کوئی کسی کا
معیارِ آدمیت گر چکا ہے
جو جاں دینے کی باتیں کررہا تھا
وہ ہی اب جان کا دشمن ہوا ہے
تم اپنا عکس کس میں ڈھونڈتے ہو
وہ اک پتھر ہے نا کہ آئینہ ہے
میں کیوں دوں بے گناہی کی صفائی
منافق سے مرا پالا پڑا ہے
بہت مشکل ہے منزل تک پہنچنا
امیرِ قافلہ رہزن ہوا ہے
ہو تم بھی راہِ حق پر کیسے مانو
تمہارا سر کہاں کاٹا گیا ہے
ترے گلشن میں کیوں نہ ہو گلِ تر
ہمارے خوں سے جو سینچا گیا ہے
سفر دشوار ہے اور ساتھ میرے
نہ ساتھی ہے نہ کوئی رہنما ہے
یہ رودادِ غزل در اصل فائق
ہر اک ٹوٹے ہوئے دل کی صدا ہے
وہ درد و غم کا اب مسکن ہوا ہے
نہیں ہم درد اب کوئی کسی کا
معیارِ آدمیت گر چکا ہے
جو جاں دینے کی باتیں کررہا تھا
وہ ہی اب جان کا دشمن ہوا ہے
تم اپنا عکس کس میں ڈھونڈتے ہو
وہ اک پتھر ہے نا کہ آئینہ ہے
میں کیوں دوں بے گناہی کی صفائی
منافق سے مرا پالا پڑا ہے
بہت مشکل ہے منزل تک پہنچنا
امیرِ قافلہ رہزن ہوا ہے
ہو تم بھی راہِ حق پر کیسے مانو
تمہارا سر کہاں کاٹا گیا ہے
ترے گلشن میں کیوں نہ ہو گلِ تر
ہمارے خوں سے جو سینچا گیا ہے
سفر دشوار ہے اور ساتھ میرے
نہ ساتھی ہے نہ کوئی رہنما ہے
یہ رودادِ غزل در اصل فائق
ہر اک ٹوٹے ہوئے دل کی صدا ہے
آخری تدوین: