'سَبْکِ ہندی' میں 'ہند' جغرافیائی ہے، اِس سے ذہن ہندی زبان کی جانب منتقل نہیں ہونا چاہیے۔ 'سبکِ ہندی' کو معمولاً 'ہندی' اِس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ جو فارسی شعراء اِس کے نمائندے تھے وہ یا تو ہند میں متولّد ہوئے تھے یا پھر ایران و ماوراءالنہر سے ہند آئے تھے۔ 'سبکِ ہندی' زبان و خیال کے ایک خاص اسلوب کا نام ہے، اور صرف فارسی سے مخصوص نہیں ہے۔ اگرچہ اِس اسلوب کا آغاز تو فارسی میں ہوا تھا، لیکن فارسی کی پرورش یافتہ زبانوں میں بھی یہ اسلوب دیگر چیزوں کی طرح منتقل ہو گیا تھا۔ عثمانی شاعر 'فہیم' کی مندرجۂ ذیل دو تُرکی ابیات دیکھیے جو سبکِ ہندی میں ہیں:
نگاه ایتمکده دُزدیده او ماها شعلهاطواروز
شُعاعِ چشمۆمۆز گاهی دراز و و گاه کوتهدۆر
Nigâh itmekde düzdîde o mâha şu'le-etvâruz
Şu'â'-ı çeşmümüz gâhî dırâz u gâh kûtehdür
ترجمہ: اُس ماہ کی جانب دُزدیدہ نگاہ کرنے میں ہم شعلہ اطوار ہیں (یعنی ہمارے اطوار شعلے کی مانند ہیں)۔۔۔ ہماری شعاعِ چشم گاہے دراز اور گاہ کوتاہ ہے۔
بن بلبلِ اَلواننِغمِ گلشنِ فیضم
مرغانِ قفس نغمهٔ تکرارې نه بیلسۆن
Ben bülbül-i elvân-negam-ı gülşen-i feyzem
Murgân-ı kafes nağme-i tekrârı ne bilsün
ترجمہ: میں گلشنِ فیض کا طرح طرح کے نغمے جاننے والا بلبل ہوں؛ مُرغانِ قفس نغمۂ تکرار کیا جانیں؟
اِسی طرح، مرزا غالب کی چند ایک غزلیات کے سوا اُن کا کُل اردو دیوان اردو میں سبکِ ہندی کا نمونہ ہے۔ مثلاً یہ چند ابیات دیکھیے:
آگہی دامِ شُنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدّعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا
بس کہ ہوں غالب، اسیری میں بھی آتش زیِر پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
دُود کو آج اس کے ماتم میں سیہ پوشی ہوئی
وہ دلِ سوزاں کہ کل تک شمعِ ماتم خانہ تھا
و علیٰ ہذا القیاس۔
میں پشتو زبان نہیں جانتا، لیکن اِتنا ضرور جانتا ہوں کہ اٹھارویں صدی کے مشہور پشتو شاعر کاظم خان شیدا نے سبکِ ہندی میں شاعری کی ہے۔
سبکِ ہندی کا بازار ایران و آذربائجان میں بالکل گرم نہ ہو سکا، کیونکہ وہاں اِس اسلوب کے خریدار ختم ہو گئے تھے، لیکن دیارِ آلِ عثمان، تُرکستان، افغانستان اور مغلیہ دیار کی شاعری پر صدیوں تک اِسی سبک ( = اُسلوب، شیوہ) کا غلبہ رہا ہے۔ اِسے ہی نازک خیالی کے نام سے جانا جاتا ہے۔