درد اتنا بڑھا لا دوا ہوگیا
دل مرا تجھ سے جب آشنا ہو گیا
یوں تو زندہ ہوں تجھ سے بچھڑ کر مگر
رنج و تکلیف میں مبتلا ہو گیا
اس قدر بڑھ گئی حاجتِ مے کشی
میرا گھر مستقل مے کدہ ہوگیا
دے رہا تھا زمانے کو درسِ وفا
جان پر جب بنی بے وفا ہوگیا
ان کے ہاتھوں نے جونہی تراشا مجھے
پہلے پتھر تھا اب آئینہ ہوگیا
اس نے اظہارِ الفت کیا ہی نہیں
میں تھا ناداں جو اس پر فدا ہو گیا
زندگی جس سہارے کی محتاج تھی
وہ سہارا ہی فائق جدا ہوگیا