عاطف ملک
محفلین
استاد محترم الف عین ،دیگر اساتذہ کرام اور محفلین کی خدمت میں اصلاح کیلیے یہ غزل پیش کر رہا ہوں۔
یہ ہے رحمت کوئی یا پھر بلائے آسمانی ہے
مِرے دل میں جو اس کے عشق کی آتش فشانی ہے
بھلے یہ ہجر کی بھٹی میں جل کر خاک ہو جائے
کرے گا اب نہ تیری آرزو اس دل نے ٹھانی ہے
خفا ہیں ہم تو اس میں بھی کمی دونوں طرف سے ہے
خطا کچھ میری ہے، کچھ ان کو مجھ سے بد گمانی ہے
کہیں دھندلا رہا ہے دہر میں شیشے کا شہزادہ
کہیں اپنی ضیا سے بے خبر مرمر کی رانی ہے
سکونِ قلب کی امید میں جینا ہے لاحاصل
کہاں دنیا میں جنت کا یہ جامِ ارغوانی ہے
اجی تم نے سنی تازہ غزل عاطف کی جو آئی
ارے چھوڑو جی اس میں بات تو وہ ہی پرانی ہے
کاشف اسرار احمد
محمد ریحان قریشی
یہ ہے رحمت کوئی یا پھر بلائے آسمانی ہے
مِرے دل میں جو اس کے عشق کی آتش فشانی ہے
بھلے یہ ہجر کی بھٹی میں جل کر خاک ہو جائے
کرے گا اب نہ تیری آرزو اس دل نے ٹھانی ہے
خفا ہیں ہم تو اس میں بھی کمی دونوں طرف سے ہے
خطا کچھ میری ہے، کچھ ان کو مجھ سے بد گمانی ہے
کہیں دھندلا رہا ہے دہر میں شیشے کا شہزادہ
کہیں اپنی ضیا سے بے خبر مرمر کی رانی ہے
سکونِ قلب کی امید میں جینا ہے لاحاصل
کہاں دنیا میں جنت کا یہ جامِ ارغوانی ہے
اجی تم نے سنی تازہ غزل عاطف کی جو آئی
ارے چھوڑو جی اس میں بات تو وہ ہی پرانی ہے
کاشف اسرار احمد
محمد ریحان قریشی
آخری تدوین: