محمد فائق
محفلین
کچھ تو امکاں ہوں کامرانی کے
کیا ستم ہیں یہ زندگانی کے
عشق سے ہم فرار کیا کرتے
ہم تو قائل تھے جاں فشانی کے
ہے خلاصہ یہ آپ بیتی کا
ہم ستائے ہیں زندگانی کے
یوں تڑپتے ہیں عشق کے مارے
جیسے مچھلی بغیر پانی کے
وہ محبت کو کیا سمجھ پاتے
تھے گرفتار بدگمانی کے
عشق، چاہت، وفا، جنوں، ایثار
اب یہ دعوے ہیں منہ زبانی کے
دار، نوکِ سناں، تہِ خنجر
یہ نتیجے ہیں حق بیانی کے
عشق پر کیوں چڑھائیں رنگِ ہوس
کب ہیں محکوم نوجوانی کے
مت کہو تم اسے غزل فائق
ہیں یہ اشعار نوحہ خوانی کے
کیا ستم ہیں یہ زندگانی کے
عشق سے ہم فرار کیا کرتے
ہم تو قائل تھے جاں فشانی کے
ہے خلاصہ یہ آپ بیتی کا
ہم ستائے ہیں زندگانی کے
یوں تڑپتے ہیں عشق کے مارے
جیسے مچھلی بغیر پانی کے
وہ محبت کو کیا سمجھ پاتے
تھے گرفتار بدگمانی کے
عشق، چاہت، وفا، جنوں، ایثار
اب یہ دعوے ہیں منہ زبانی کے
دار، نوکِ سناں، تہِ خنجر
یہ نتیجے ہیں حق بیانی کے
عشق پر کیوں چڑھائیں رنگِ ہوس
کب ہیں محکوم نوجوانی کے
مت کہو تم اسے غزل فائق
ہیں یہ اشعار نوحہ خوانی کے
آخری تدوین: