یوں سمجھیں کہ قوافی میں دو چیزیں ہوتی ہیں، ایک مشترک حروف، اور دوسرای اس سے ماقبل کا حرف۔ اور اس پر موجود اعراب۔ جیسے ہوتے، سوتے، کھوتے درست قوافی ہیں۔ مشترک حروف، ’وتے‘ اور ان سے ما قبل ہ، س، اور کھ۔
اسی طرح بہتے، سہتے، کہتے درست قافیے ہیں۔ ’ہتے‘ مشترک حروف، اور ان سے ما قبل کہ، ب، س، ک سب پر زیر کی حرکت بھی ہے۔
گاتے، جاتے میں مشترک حروف ’اتے‘ ہے، اور ما قبل گ، ج۔۔ درست۔
لیکن ان سب کو آپس میں قافیہ بنایا جائے تو محض ’تے‘ مشترک حروف کے علاوہ دوسری کوئی شرط پوری نہیں ہوتی۔ اس سے پہلے کے Syllable مختلف ہیں۔
ہاں سر بالکل درست فرمایا اچھا اس پر کام کرتا ہوں کہ درست ہو جائے اور سر اس کو اگر عنوان دے کر نظم میں بدل دے تو نظم؛ شمار ہوگی؟
اور یہ سرکار جون کی لکھی گئی غزل ہے اور اس غزل میں گی بھی تھی کھی ری یہی ہونگے قوافی سر آخری الفاظ پر؟؟؟
گنوائی کس کی تمنا میں زندگی میں نے
وہ کون ہے جسے دیکھا نہیں کبھی میں نے
ترا خیال تو ہے پر ترا وجود نہیں
ترے لئے تو یہ محفل سجائی تھی میں نے
ترے عدم کو گوارا نہ تھا وجود مرا
سو اپنی بیخ کنی میں کمی نہ کی میں نے
ہیں میرے ذات سے منسوب صد فسانہء عشق
اور ایک سطر بھی اب تک نہیں لکھی میں نے
خود اپنے عشوہ و انداز کا شہید ہوں میں
خود اپنی ذات سے برتی ہے بے رخی میں نے
مرے حریف مری یکہ تازیوں پہ نثار
تمام عمر حلیفوں سے جنگ کی میں نے
خراش نغمہ سے سینہ چھِلا ہوا ہے مرا
فغاں کہ ترک نہ کی نغمہ پروری میں نے
دوا سے فائد مقصود تھا ہی کب کہ فقط
دوا کے شوق میں صحت تباہ کی میں نے
زبانہ زن تھا جگر سوز تشنگی کا عذاب
سو جوفِ سینہ میں دوزخ انڈیل لی میں نے
سرورِ مئے پہ بھی غالب رہا شعور مرا
کہ ہر رعایتِ غم ذہن میں رکھی میں نے
غمِ شعور کوئی دم تو مجھ کو مہلت دے
تمام عمر جلایا ہے اپنا جی میں نے
علاج یہ ہے کہ مجبور کر دیا جاؤں
وگرنہ یوں تو کسی کی نہیں سنی میں نے
رہا میں شاہدِ تنہا، نشینِ مسندِ غم
اور اپنے کربِ انا سے غرض رکھی میں نے