محمد فائق
محفلین
ہے اب بھی شمعِ حیات روشن کوئی اندھیرا نہیں ہوا ہے
چمن ہے زد میں خزاں کی مانا، مگر خرابہ نہیں ہوا ہے
ہے در حقیقت میں کون اپنا بھلا کہاں سے دکھائی دے گا
چراغ خیمے کا جل رہا ہے ابھی اجالا نہیں ہوا ہے
نہ آبلے پاوں میں ہیں تیرے نہ تجھ پہ شدت کی پیاس طاری
تو وادی_عشق کا مسافر ہوا بھی ہے یا نہیں ہوا ہے
نہیں ہوں طرزِ منافقت سے میں آشنا بس خطا یہی ہے
اسی لیے اس کے دوستوں میں شمار میرا نہیں ہوا ہے
خموشی فطرت نہیں ہے میری سخن سے نسبت ہے میری فائق
جو دیکھتا ہوں وہ بولتا میں نہیں ہوں، ایسا نہیں ہوا ہے
چمن ہے زد میں خزاں کی مانا، مگر خرابہ نہیں ہوا ہے
ہے در حقیقت میں کون اپنا بھلا کہاں سے دکھائی دے گا
چراغ خیمے کا جل رہا ہے ابھی اجالا نہیں ہوا ہے
نہ آبلے پاوں میں ہیں تیرے نہ تجھ پہ شدت کی پیاس طاری
تو وادی_عشق کا مسافر ہوا بھی ہے یا نہیں ہوا ہے
نہیں ہوں طرزِ منافقت سے میں آشنا بس خطا یہی ہے
اسی لیے اس کے دوستوں میں شمار میرا نہیں ہوا ہے
خموشی فطرت نہیں ہے میری سخن سے نسبت ہے میری فائق
جو دیکھتا ہوں وہ بولتا میں نہیں ہوں، ایسا نہیں ہوا ہے
آخری تدوین: