عابد علی خاکسار
محفلین
محترم استاد الف عین صاحب
امجد علی راجا صاحب
ریحان قریشئ صاحب
کب تجھ سے کہا ہے کہ مرے پاس ٹھہر جا
تو میرا نہیں ہے تو مرے دل سے اتر جا
ہر وقت ترے دل پہ اگر خوفء عدو ہے
پھر ایسے ترے جینے سے بہتر ہے کہ مر جا
دریا بھی ہمارے ہیں سمندر بھی ہمارے
جب چاہے جدھر چاہے تو بے خوف اتر جا
آلام و مصائب کا سمندر کہہ رہا ہے
آغوش صدف ہے یہی آ بن کے گہر جا
ہونا ہے امر تجھ کو اگر راہی جہاں میں
منزل کی تڑپ میں تو دل و جاں سے گزر جا
مرجھائے ہوئے پھول کھلیں دیکھ کے تجھ کو
جانا ہے تجھے باغ میں تو بن کے سحر جا
مانا کہ خزاں کا ہے زمانہ ابھی لیکن
کچھ نام کمانا ہے تو اب سے ہی نکھر جا
پاگل نہ کہیں کر دیں رخء جاناں کے جلوے
اے زلفء گرہ گیر تو اب رخ پہ بکھر جا
نادان ہے کتنا کہ سبھی کچھ گنوا کے اب
دل کہتا ہے عابد کہ محبت سے مکر جا
امجد علی راجا صاحب
ریحان قریشئ صاحب
کب تجھ سے کہا ہے کہ مرے پاس ٹھہر جا
تو میرا نہیں ہے تو مرے دل سے اتر جا
ہر وقت ترے دل پہ اگر خوفء عدو ہے
پھر ایسے ترے جینے سے بہتر ہے کہ مر جا
دریا بھی ہمارے ہیں سمندر بھی ہمارے
جب چاہے جدھر چاہے تو بے خوف اتر جا
آلام و مصائب کا سمندر کہہ رہا ہے
آغوش صدف ہے یہی آ بن کے گہر جا
ہونا ہے امر تجھ کو اگر راہی جہاں میں
منزل کی تڑپ میں تو دل و جاں سے گزر جا
مرجھائے ہوئے پھول کھلیں دیکھ کے تجھ کو
جانا ہے تجھے باغ میں تو بن کے سحر جا
مانا کہ خزاں کا ہے زمانہ ابھی لیکن
کچھ نام کمانا ہے تو اب سے ہی نکھر جا
پاگل نہ کہیں کر دیں رخء جاناں کے جلوے
اے زلفء گرہ گیر تو اب رخ پہ بکھر جا
نادان ہے کتنا کہ سبھی کچھ گنوا کے اب
دل کہتا ہے عابد کہ محبت سے مکر جا