یہ جناب
مزمل شیخ بسمل ہی کا کام ہے کہ ایسی غیرمانوس بحروں کو سر کر لیتے ہیں۔ ان کی رائے نہ پڑھی ہوتی تو میں شاید اس کو خارج از وزن کہہ دیتا، جو یقیناً غلط ہوتا۔ فوری طور پر میرے ذہن میں بھی کچھ مصرعوں کی بحر ’’متفاعلن فعولن‘‘ آئی تھی جیسا جناب
الف عین نے فرمایا۔ اور بقیہ مصرعوں کے شروع میں کم از کم دو حرف زیادہ ہونے کا گمان گزرا تھا۔ وہ تو بھلا ہو جناب
مزمل شیخ بسمل کا کہ میری کوتاہ علمی کا پردہ رہ گیا۔ بہ ایں ہمہ مجھے یہ کہنےمیں باک نہیں ہے کہ بحور کے ایسے کھیل میں اشعار کی جمالیاتی اور معنوی سطح برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے اور عام قاری تک شعر کی شیرینی نہیں پہنچ پاتی۔ سچی بات یہ ہے کہ میں نے کبھی کسی غیرمانوس بحر میں کہنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ یہاں تک کہ ’’ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا‘‘ پر پورا اترنا بھی میرے لئے ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
مجھے جناب
شیرازخان کے ادبی قد و قامت کا کوئی اندازہ نہیں، تاہم قوافی کے بارے میں یوں کہہ لیجئے میری تشفی نہیں ہو رہی۔شاید ’’ر‘‘ اور ’’ڑ‘‘ کی بہتات ہے جو حلق سے نہیں اتر رہی۔ اس پر
مزمل شیخ بسمل کی رائے افضلیت رکھتی ہے۔ جناب
الف عین کے اس مؤقف کی تائید کرتا ہوں کہ مانوس بحروں کو ترجیح دی جانی چاہئے۔ غیر مانوس بحروں میں لکھنا کوئی عیب نہی، البتہ میرے جیسا قاری شاعر کے ساتھ چل نہیں پاتا۔
جناب
محمد اسامہ سَرسَری کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ فارسی میں بہت سارے الفاظ کی دوہری املاء رائج ہے: شاہ ، شہ؛ راہ، رہ؛ گاہ، گہ؛ کوہ، کُہ؛ وغیرہ ۔ پناہ اور پنہ کو بھی اسی نہج پر قیاس کیا جا سکتا ہے اور یہ غلط بھی نہیں ہو گا۔ لیکن ایک نکتہ یہاں بہت اہم ہے کہ جہاں دوہری املاء کی سہولت کے سبب الف یا واو کا لکھا جانا اختیاری ہو، اور وہاں ایسے الف یا واو کا اخفاء بھی واقع ہو رہا ہو، وہاں اس کو لکھنا عبث ہو گا۔ اگر مجھے ’’شاہ‘‘ لکھ کر شعر میں اس کو ’’شہ‘‘ پڑھنا ہے تو الف کا لکھنا کیا ضرور تھا؟۔ یہاں جناب
مزمل شیخ بسمل صاحب کا مؤقف راجح ہے۔
مجھے امید ہے کہ صاحبِ غزل مجھے یہ کہنے کی اجازت دیں گے اس غزل میں فنیات نے مضمون آفرینی کو متأثر کیا ہے۔