برائے اِصلاحِ

الف عین

لائبریرین
پہلے تو میں مزمل شیخ بسمل سے پوچھنا چاہون گا کہ اس غزل کی کیا بحر متعین کی ہے انہوں نے؟ میں سمجھنے سے قاصر ہوں۔ اگر کوئی استادانہ غیر مانوس بحر سمجھی جا رہی ے تو شاید غلط ہی ہوگا۔ @شیراز خاں اس طرح سیکھ نہیں پائیں گے۔ پہلے مانوس بحور میں کمال پیدا کر لیا جائے۔
کچھ مصرع تو متفاعلن فعولن میں تقطیع ہو رہے ہیں۔
 
پہلے تو میں مزمل شیخ بسمل سے پوچھنا چاہون گا کہ اس غزل کی کیا بحر متعین کی ہے انہوں نے؟ میں سمجھنے سے قاصر ہوں۔ اگر کوئی استادانہ غیر مانوس بحر سمجھی جا رہی ے تو شاید غلط ہی ہوگا۔ @شیراز خاں اس طرح سیکھ نہیں پائیں گے۔ پہلے مانوس بحور میں کمال پیدا کر لیا جائے۔
کچھ مصرع تو متفاعلن فعولن میں تقطیع ہو رہے ہیں۔

استاد جی یہ غزل ”بحرِ رجز مربع مطوی مسکن مرفل“ پر تقطیع ہوتی ہے۔ اور وزن ہے:
مفعولن مفاعلاتن
میں نے اس لئے نہیں ٹوکا کہ ہر کوئی اپنی طبیعت کے مطابق غزل کہتا ہے۔ ہر کوئی ایک جیسی موزوں طبیعت نہیں رکھتا۔ اب شیراز صاحب نے اس میں غزل کہہ ہی ڈالی تو مجھے کوئی قباحت نہیں۔ میرا کام تو وزن کی درستی کرنا ہے۔ بہتر مشورہ تو بہر حال آپ ہی دینگے۔

محمد یعقوب آسی صاحب کیا فرماتے ہیں؟
 
یہ جناب مزمل شیخ بسمل ہی کا کام ہے کہ ایسی غیرمانوس بحروں کو سر کر لیتے ہیں۔ ان کی رائے نہ پڑھی ہوتی تو میں شاید اس کو خارج از وزن کہہ دیتا، جو یقیناً غلط ہوتا۔ فوری طور پر میرے ذہن میں بھی کچھ مصرعوں کی بحر ’’متفاعلن فعولن‘‘ آئی تھی جیسا جناب الف عین نے فرمایا۔ اور بقیہ مصرعوں کے شروع میں کم از کم دو حرف زیادہ ہونے کا گمان گزرا تھا۔ وہ تو بھلا ہو جناب مزمل شیخ بسمل کا کہ میری کوتاہ علمی کا پردہ رہ گیا۔ بہ ایں ہمہ مجھے یہ کہنےمیں باک نہیں ہے کہ بحور کے ایسے کھیل میں اشعار کی جمالیاتی اور معنوی سطح برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے اور عام قاری تک شعر کی شیرینی نہیں پہنچ پاتی۔ سچی بات یہ ہے کہ میں نے کبھی کسی غیرمانوس بحر میں کہنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ یہاں تک کہ ’’ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا‘‘ پر پورا اترنا بھی میرے لئے ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
مجھے جناب شیرازخان کے ادبی قد و قامت کا کوئی اندازہ نہیں، تاہم قوافی کے بارے میں یوں کہہ لیجئے میری تشفی نہیں ہو رہی۔شاید ’’ر‘‘ اور ’’ڑ‘‘ کی بہتات ہے جو حلق سے نہیں اتر رہی۔ اس پر مزمل شیخ بسمل کی رائے افضلیت رکھتی ہے۔ جناب الف عین کے اس مؤقف کی تائید کرتا ہوں کہ مانوس بحروں کو ترجیح دی جانی چاہئے۔ غیر مانوس بحروں میں لکھنا کوئی عیب نہی، البتہ میرے جیسا قاری شاعر کے ساتھ چل نہیں پاتا۔
جناب محمد اسامہ سَرسَری کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ فارسی میں بہت سارے الفاظ کی دوہری املاء رائج ہے: شاہ ، شہ؛ راہ، رہ؛ گاہ، گہ؛ کوہ، کُہ؛ وغیرہ ۔ پناہ اور پنہ کو بھی اسی نہج پر قیاس کیا جا سکتا ہے اور یہ غلط بھی نہیں ہو گا۔ لیکن ایک نکتہ یہاں بہت اہم ہے کہ جہاں دوہری املاء کی سہولت کے سبب الف یا واو کا لکھا جانا اختیاری ہو، اور وہاں ایسے الف یا واو کا اخفاء بھی واقع ہو رہا ہو، وہاں اس کو لکھنا عبث ہو گا۔ اگر مجھے ’’شاہ‘‘ لکھ کر شعر میں اس کو ’’شہ‘‘ پڑھنا ہے تو الف کا لکھنا کیا ضرور تھا؟۔ یہاں جناب مزمل شیخ بسمل صاحب کا مؤقف راجح ہے۔
مجھے امید ہے کہ صاحبِ غزل مجھے یہ کہنے کی اجازت دیں گے اس غزل میں فنیات نے مضمون آفرینی کو متأثر کیا ہے۔
 
یہ جناب مزمل شیخ بسمل ہی کا کام ہے کہ ایسی غیرمانوس بحروں کو سر کر لیتے ہیں۔ ان کی رائے نہ پڑھی ہوتی تو میں شاید اس کو خارج از وزن کہہ دیتا، جو یقیناً غلط ہوتا۔ فوری طور پر میرے ذہن میں بھی کچھ مصرعوں کی بحر ’’متفاعلن فعولن‘‘ آئی تھی جیسا جناب الف عین نے فرمایا۔ اور بقیہ مصرعوں کے شروع میں کم از کم دو حرف زیادہ ہونے کا گمان گزرا تھا۔ وہ تو بھلا ہو جناب مزمل شیخ بسمل کا کہ میری کوتاہ علمی کا پردہ رہ گیا۔ بہ ایں ہمہ مجھے یہ کہنےمیں باک نہیں ہے کہ بحور کے ایسے کھیل میں اشعار کی جمالیاتی اور معنوی سطح برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے اور عام قاری تک شعر کی شیرینی نہیں پہنچ پاتی۔ سچی بات یہ ہے کہ میں نے کبھی کسی غیرمانوس بحر میں کہنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ یہاں تک کہ ’’ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا‘‘ پر پورا اترنا بھی میرے لئے ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
مجھے جناب شیرازخان کے ادبی قد و قامت کا کوئی اندازہ نہیں، تاہم قوافی کے بارے میں یوں کہہ لیجئے میری تشفی نہیں ہو رہی۔شاید ’’ر‘‘ اور ’’ڑ‘‘ کی بہتات ہے جو حلق سے نہیں اتر رہی۔ اس پر مزمل شیخ بسمل کی رائے افضلیت رکھتی ہے۔ جناب الف عین کے اس مؤقف کی تائید کرتا ہوں کہ مانوس بحروں کو ترجیح دی جانی چاہئے۔ غیر مانوس بحروں میں لکھنا کوئی عیب نہی، البتہ میرے جیسا قاری شاعر کے ساتھ چل نہیں پاتا۔
جناب محمد اسامہ سَرسَری کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ فارسی میں بہت سارے الفاظ کی دوہری املاء رائج ہے: شاہ ، شہ؛ راہ، رہ؛ گاہ، گہ؛ کوہ، کُہ؛ وغیرہ ۔ پناہ اور پنہ کو بھی اسی نہج پر قیاس کیا جا سکتا ہے اور یہ غلط بھی نہیں ہو گا۔ لیکن ایک نکتہ یہاں بہت اہم ہے کہ جہاں دوہری املاء کی سہولت کے سبب الف یا واو کا لکھا جانا اختیاری ہو، اور وہاں ایسے الف یا واو کا اخفاء بھی واقع ہو رہا ہو، وہاں اس کو لکھنا عبث ہو گا۔ اگر مجھے ’’شاہ‘‘ لکھ کر شعر میں اس کو ’’شہ‘‘ پڑھنا ہے تو الف کا لکھنا کیا ضرور تھا؟۔ یہاں جناب مزمل شیخ بسمل صاحب کا مؤقف راجح ہے۔
مجھے امید ہے کہ صاحبِ غزل مجھے یہ کہنے کی اجازت دیں گے اس غزل میں فنیات نے مضمون آفرینی کو متأثر کیا ہے۔
جزاکم اللہ خیرا۔ آپ کا لکھا پڑھ کر جانے کیوں بہت اچھا لگتا ہے استاد جی!
 
یہ جناب مزمل شیخ بسمل ہی کا کام ہے کہ ایسی غیرمانوس بحروں کو سر کر لیتے ہیں۔ ان کی رائے نہ پڑھی ہوتی تو میں شاید اس کو خارج از وزن کہہ دیتا، جو یقیناً غلط ہوتا۔ فوری طور پر میرے ذہن میں بھی کچھ مصرعوں کی بحر ’’متفاعلن فعولن‘‘ آئی تھی جیسا جناب الف عین نے فرمایا۔ اور بقیہ مصرعوں کے شروع میں کم از کم دو حرف زیادہ ہونے کا گمان گزرا تھا۔ وہ تو بھلا ہو جناب مزمل شیخ بسمل کا کہ میری کوتاہ علمی کا پردہ رہ گیا۔ بہ ایں ہمہ مجھے یہ کہنےمیں باک نہیں ہے کہ بحور کے ایسے کھیل میں اشعار کی جمالیاتی اور معنوی سطح برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے اور عام قاری تک شعر کی شیرینی نہیں پہنچ پاتی۔ سچی بات یہ ہے کہ میں نے کبھی کسی غیرمانوس بحر میں کہنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ یہاں تک کہ ’’ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا‘‘ پر پورا اترنا بھی میرے لئے ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
مجھے جناب شیرازخان کے ادبی قد و قامت کا کوئی اندازہ نہیں، تاہم قوافی کے بارے میں یوں کہہ لیجئے میری تشفی نہیں ہو رہی۔شاید ’’ر‘‘ اور ’’ڑ‘‘ کی بہتات ہے جو حلق سے نہیں اتر رہی۔ اس پر مزمل شیخ بسمل کی رائے افضلیت رکھتی ہے۔ جناب الف عین کے اس مؤقف کی تائید کرتا ہوں کہ مانوس بحروں کو ترجیح دی جانی چاہئے۔ غیر مانوس بحروں میں لکھنا کوئی عیب نہی، البتہ میرے جیسا قاری شاعر کے ساتھ چل نہیں پاتا۔
جناب محمد اسامہ سَرسَری کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ فارسی میں بہت سارے الفاظ کی دوہری املاء رائج ہے: شاہ ، شہ؛ راہ، رہ؛ گاہ، گہ؛ کوہ، کُہ؛ وغیرہ ۔ پناہ اور پنہ کو بھی اسی نہج پر قیاس کیا جا سکتا ہے اور یہ غلط بھی نہیں ہو گا۔ لیکن ایک نکتہ یہاں بہت اہم ہے کہ جہاں دوہری املاء کی سہولت کے سبب الف یا واو کا لکھا جانا اختیاری ہو، اور وہاں ایسے الف یا واو کا اخفاء بھی واقع ہو رہا ہو، وہاں اس کو لکھنا عبث ہو گا۔ اگر مجھے ’’شاہ‘‘ لکھ کر شعر میں اس کو ’’شہ‘‘ پڑھنا ہے تو الف کا لکھنا کیا ضرور تھا؟۔ یہاں جناب مزمل شیخ بسمل صاحب کا مؤقف راجح ہے۔
مجھے امید ہے کہ صاحبِ غزل مجھے یہ کہنے کی اجازت دیں گے اس غزل میں فنیات نے مضمون آفرینی کو متأثر کیا ہے۔

بہت خوب ارشادات۔
در اصل بحر اور وزن کا معاملہ میری نظر میں تھوڑا مختلف ہے۔ میرے مطابق اردو شعر گوئی پہلے موزوں طبع کے ساتھ خاص ہے، پھر عروض کے ساتھ، پھر قوافی کے ساتھ۔
اب پہلے نکتے کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ موزوں طبع شعر گوئی کی اصل ہے۔ اب اس موزوں طبع کا کیا مطلب ہے؟ اگر آپ اسے چند معروف بحور تک محدود کردیں تو یہ زیادتی ہوگی، ہر کسی کی طبیعت دوسرے سے مختلف ہے۔ میں کہیں دور کی بات نہیں کرتا بلکہ اپنی کہتا ہوں۔ ابھی ایک سال پہلے تک میں ”فاعلاتن مفاعلن فعلن“ اور ”مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن“ کے اوزان میں لکھی گئی غزلوں کو میں بے وزن سمجھتا تھا، اب چونکہ اوزان کا علم نہیں تھا اور طبعِ موزوں کی بنیاد پر جو اوزان میری طبیعت کے مطابق تھے انہی کو درست اور باقیوں کو خارج از وزن سمجھتا۔ میرے ایک شاعر دوست ایسے ہیں جو ”فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن“ پر کبھی ایک شعر بھی نہیں کہہ سکتے، ہمارے انگریزی لٹریچر کے استاد جی مرزا اسحاق بیگ صاحب، گو کہ ایک جہاں دیدہ اور قادر الکلام شاعر ہیں مگر ”مفتعلن مفاعلن“ اور ”مفعول مفاعیلن“ جیسے مانوس و معروف اوزان میں شعر نہیں کہہ سکتے۔ تو صاحب! طبعِ موزوں کا معیار تو اپنی طبیعت تک محدود ہے۔ اب اگر کسی شاعر کی طبیعت کسی غیر مانوس وزن کی طرف مائل ہے اور وہ اس وزن میں با آسانی شعر کہہ لیتا ہے، طبیعت پر جبر نہیں کرنا پڑتا تو میری ناقص رائے میں اس کے لئے احسن یہ ہے اسی وزن میں شعر کہے۔ اس کے بعد مانوس اوزان میں بھی کوشش کرے، لیکن ان چھ یا آٹھ بحور میں شعر کہنے کو اچھا سمجھنا، باقی اوزان کو ترک کرنے کو اچھا سمجھنا میرے نزدیک درست نہیں۔
غیر مانوس بحور کو مانوس کس طرح بنایا جائے گا؟ اگر ایک انسان جو بحر رمل مثمن محذوف میں شعر کہنے کے قابل نہیں، اور وہ مختلف شعرا کے کلام کو قرات کرنے سے اپنی طبیعت کو اس وزن کے مطابق موزوں کر لیتا ہے تو کیا بعید کہ وہ باقی اوزان میں بھی ایسا کرلے؟
اس سب کے با وجود، میری بات کو محض اس لئے رد کیا جاسکتا ہے کہ میں عروضی ہوں۔ اور مجھے فاعلاتن فاعلات سے آگے کچھ آتا ہی نہیں۔ :rolleyes: :):):)
 
بہت خوب ارشادات۔
در اصل بحر اور وزن کا معاملہ میری نظر میں تھوڑا مختلف ہے۔ میرے مطابق اردو شعر گوئی پہلے موزوں طبع کے ساتھ خاص ہے، پھر عروض کے ساتھ، پھر قوافی کے ساتھ۔
اب پہلے نکتے کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ موزوں طبع شعر گوئی کی اصل ہے۔ اب اس موزوں طبع کا کیا مطلب ہے؟ اگر آپ اسے چند معروف بحور تک محدود کردیں تو یہ زیادتی ہوگی، ہر کسی کی طبیعت دوسرے سے مختلف ہے۔ میں کہیں دور کی بات نہیں کرتا بلکہ اپنی کہتا ہوں۔ ابھی ایک سال پہلے تک میں ”فاعلاتن مفاعلن فعلن“ اور ”مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن“ کے اوزان میں لکھی گئی غزلوں کو میں بے وزن سمجھتا تھا، اب چونکہ اوزان کا علم نہیں تھا اور طبعِ موزوں کی بنیاد پر جو اوزان میری طبیعت کے مطابق تھے انہی کو درست اور باقیوں کو خارج از وزن سمجھتا۔ میرے ایک شاعر دوست ایسے ہیں جو ”فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن“ پر کبھی ایک شعر بھی نہیں کہہ سکتے، ہمارے انگریزی لٹریچر کے استاد جی مرزا اسحاق بیگ صاحب، گو کہ ایک جہاں دیدہ اور قادر الکلام شاعر ہیں مگر ”مفتعلن مفاعلن“ اور ”مفعول مفاعیلن“ جیسے مانوس و معروف اوزان میں شعر نہیں کہہ سکتے۔ تو صاحب! طبعِ موزوں کا معیار تو اپنی طبیعت تک محدود ہے۔ اب اگر کسی شاعر کی طبیعت کسی غیر مانوس وزن کی طرف مائل ہے اور وہ اس وزن میں با آسانی شعر کہہ لیتا ہے، طبیعت پر جبر نہیں کرنا پڑتا تو میری ناقص رائے میں اس کے لئے احسن یہ ہے اسی وزن میں شعر کہے۔ اس کے بعد مانوس اوزان میں بھی کوشش کرے، لیکن ان چھ یا آٹھ بحور میں شعر کہنے کو اچھا سمجھنا، باقی اوزان کو ترک کرنے کو اچھا سمجھنا میرے نزدیک درست نہیں۔
غیر مانوس بحور کو مانوس کس طرح بنایا جائے گا؟ اگر ایک انسان جو بحر رمل مثمن محذوف میں شعر کہنے کے قابل نہیں، اور وہ مختلف شعرا کے کلام کو قرات کرنے سے اپنی طبیعت کو اس وزن کے مطابق موزوں کر لیتا ہے تو کیا بعید کہ وہ باقی اوزان میں بھی ایسا کرلے؟
اس سب کے با وجود، میری بات کو محض اس لئے رد کیا جاسکتا ہے کہ میں عروضی ہوں۔ اور مجھے فاعلاتن فاعلات سے آگے کچھ آتا ہی نہیں۔ :rolleyes: :):):)

مزاج ہی تو اولین چیز ہے صاحب۔ آپ کے ارشادات اور انفرادی مثالیں بالکل بجا۔ اور جہاں میں نے ’’مانوس‘‘ یا ’’غیر مانوس‘‘ کہا ہے، وہ بھی ظاہر ہے میرا کہا ہوا ہے اور میرے مزاج کا دخل تو اس میں ہے۔ میں آپ سے مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ:
میرے مطابق اردو شعر گوئی پہلے موزوں طبع کے ساتھ خاص ہے، پھر عروض کے ساتھ، پھر قوافی کے ساتھ۔ اب پہلے نکتے کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ موزوں طبع شعر گوئی کی اصل ہے۔
 
آخری تدوین:
Top