محض میری رائے میں۔
جب تجلی تری ہر سو دیکھیں
کیوں لب و عارض و گیسو دیکھیں
÷÷درست ہے۔
قافیہ میں سقم نہیں ہے۔ ”سو“ کا استعمال اس وقت ایطا ہوتا جب دونوں ”سو“ ایک ہی معانی میں ہوتے۔ مثلاً ”ہر سو“ اور ”چار سو“۔ جس لفظ کی تکرار ایک ہی معنی میں ہو اور اس سے پہلے کے الفاظ میں روی کی مخالفت ہوجائے وہ ایطا کہلاتا ہے۔ ایک اور مثال سمجھیں: ”حاجت مند“ اور ”درد مند“۔ دونوں میں مند کی تکرار ہے جو ایطا ہے۔ اگر شعر میں ”دولت مند“ اور ”حاجت مند“ قافیہ ہوتے تو ایطا نہیں تھا کیونکہ دولت اور حاجت ہم قافیہ ہوتے ہیں اور روی دونوں میں ت ہے۔ اسی لئے زیرِ بحث مطلع میں ”سو“ الگ معانی میں الگ قافیہ ہے۔ اور گیسو ایک الگ لفظ ہے جس میں ”سو“ لفظ کا حصہ ہی ہے۔ اسی وجہ سے یہ ایطا نہیں ہے۔
وہ جو گزریں تو گل و گلشن بھی
دہر کو ساقطِ خوشبو دیکھیں
÷÷مفہوم واضح کریں تو کچھ کہا جائے۔ دہر کون ہے؟ خود گل و گلشن؟ گل اور گلشن کا اس طرح جمع ہونا بھی سوالیہ نشان بن سکتا ہے۔
محمد یعقوب آسی صاحب کیا فرمائینگے؟
بے ٹھکانہ ہے صنم تو دل لے
آ چلیں حسن کی پھر خو دیکھیں
÷÷ربط بڑی بے دردی کے ساتھ مضروب ہوا ہے۔
”دل لے“ تو ہوں کہا جیسے کوئی مکان کرائے پر لینا ہو
(مذاق)
دوسرے مصرعے کا پہلے سے تعلق؟
وادیِ غم کا سفر یاد آئے
"تم" کو ہوتے کبھی جو "تو" دیکھیں
÷÷ مفہوم؟؟ وہی بے ربط دو فقرے۔
چشمِ ریگِ وطنِ مجنوں میں
نامِ قیس آتے ہی آنسو دیکھیں
÷÷پہلے مصرعے میں ترکیب فارسی بہت زیادہ قبیح ہے۔
شعر اچھا ہے۔ نام جگہ ”ذکر“ ہوتا تو میرے نزدیک فصیح تر تھا۔
آخر میں یہ کہونگا کہ ابہام تو بہرحال ہے۔
اور یہ ابہام دانستہ نہیں ہے غزل سے واضح ہوتا ہے۔ مگر نو آموزی کی بنا پر اس ابہام کو کہیں کہیں معاف کیا جاسکتا ہے کہ ابلاغ پر ملکہ ہر کسی کا کام نہیں۔