عاطف ملک
محفلین
شوق وہ ہے کہ انتہا بھی نہیں
درد ایسا ہے، کچھ دوا بھی نہیں
دم نکل جائے اتنا دم ہی کہاں!
اس پہ جینے کا آسرا بھی نہیں
یک بہ یک وار دوستوں کے سہے
ایسا باظرف تھا، مڑا بھی نہیں
ڈال رکھا ہے مجھ کو الجھن میں
مانتا بھی نہیں، خفا بھی نہیں
داد خواہی کی کیسے ہو امید
اس نے جب مدعا سنا بھی نہیں
وہ ستمگر ہے ظلم ڈھائے گا
تو ہے ظالم کہ چیختا بھی نہیں
اس کی یادیں ہیں، دل ہے، اور ہے ملال
مجھ میں اب اور کچھ بچا بھی نہیں
آرزوئے وصال باقی ہے
تُو نہیں ہے تو کیا خدا بھی نہیں
لوگ کہتے ہیں مجھ میں بھی تُو ہے
ڈھونڈنے پر مگر ملا بھی نہیں
ظلم عاطف پہ ہیں جہاں بھر کے
اور کوئی درد آشنا بھی نہیں
درد ایسا ہے، کچھ دوا بھی نہیں
دم نکل جائے اتنا دم ہی کہاں!
اس پہ جینے کا آسرا بھی نہیں
یک بہ یک وار دوستوں کے سہے
ایسا باظرف تھا، مڑا بھی نہیں
ڈال رکھا ہے مجھ کو الجھن میں
مانتا بھی نہیں، خفا بھی نہیں
داد خواہی کی کیسے ہو امید
اس نے جب مدعا سنا بھی نہیں
وہ ستمگر ہے ظلم ڈھائے گا
تو ہے ظالم کہ چیختا بھی نہیں
اس کی یادیں ہیں، دل ہے، اور ہے ملال
مجھ میں اب اور کچھ بچا بھی نہیں
آرزوئے وصال باقی ہے
تُو نہیں ہے تو کیا خدا بھی نہیں
لوگ کہتے ہیں مجھ میں بھی تُو ہے
ڈھونڈنے پر مگر ملا بھی نہیں
ظلم عاطف پہ ہیں جہاں بھر کے
اور کوئی درد آشنا بھی نہیں
آخری تدوین: