برائے تنقید و اصلاح اپنی ایک نظم پیش خدمت ہے

Wajih Bukhari

محفلین
اے خدا

شاید نصیب نیند ہمیشہ کی سو گیا

یہ ہجر بحرِ غم میں سفینہ ڈبو گیا

خنجر سا ایک قلب میں پیوست ہو گیا

جس پل ترا خیال کہیں مجھ سے کھو گیا


کچھ بھی نہیں حیات میں رکھّا ترے بنا

جینے کو میں نے تلخ ہی چکھّا ترے بنا


--۔ -۔-۔ ۔--۔ -۔-


قائم تری اساس پہ سارا جہان ہے

زندہ تری حیات سے ہر ایک جان ہے

تیرے سوا ہے جو وہ ادھورا بیان ہے

ملتا ہر ایک علم میں تیرا نشان ہے


معنی ہے کائنات میں تیرے وجود سے

ہر فلسفے میں فہم ہے تیری نمود سے

--۔ -۔-۔ ۔--۔ -۔-

تجھ کو نہ پا سکا میں بُرا بخت ہے مرا

جینا ترے بغیر بہت سخت ہے مرا

دل اب فراق سے ترے دو لخت ہے مرا

مایوسیوں کا بوجھ ہی اب رخت ہے مرا


سوچا ہے تجھ کو کھو کے، ملا کچھ نہیں مجھے

رکھّوں کہاں قدم نہیں ملتی زمیں مجھے


--۔ -۔-۔ ۔--۔ -۔-


پُر ہو ترے جمال سے اندر خلا مرے!

سارے ملال، خوف و خطر ہوں فنا مرے!

تیرا خیال پھر سے ہو دل کو عطا مرے!

اے کاش ساتھ ساتھ رہے تُو سدا مرے!


تاریکیوں میں نور ترا دل کے پاس ہو!

مایوسیوں میں دل کو بندھی تجھ سے آس ہو!
 

منیب الف

محفلین
اے خدا

شاید نصیب نیند ہمیشہ کی سو گیا

یہ ہجر بحرِ غم میں سفینہ ڈبو گیا

خنجر سا ایک قلب میں پیوست ہو گیا

جس پل ترا خیال کہیں مجھ سے کھو گیا


کچھ بھی نہیں حیات میں رکھّا ترے بنا

جینے کو میں نے تلخ ہی چکھّا ترے بنا


--۔ -۔-۔ ۔--۔ -۔-


قائم تری اساس پہ سارا جہان ہے

زندہ تری حیات سے ہر ایک جان ہے

تیرے سوا ہے جو وہ ادھورا بیان ہے

ملتا ہر ایک علم میں تیرا نشان ہے


معنی ہے کائنات میں تیرے وجود سے

ہر فلسفے میں فہم ہے تیری نمود سے

--۔ -۔-۔ ۔--۔ -۔-

تجھ کو نہ پا سکا میں بُرا بخت ہے مرا

جینا ترے بغیر بہت سخت ہے مرا

دل اب فراق سے ترے دو لخت ہے مرا

مایوسیوں کا بوجھ ہی اب رخت ہے مرا


سوچا ہے تجھ کو کھو کے، ملا کچھ نہیں مجھے

رکھّوں کہاں قدم نہیں ملتی زمیں مجھے


--۔ -۔-۔ ۔--۔ -۔-


پُر ہو ترے جمال سے اندر خلا مرے!

سارے ملال، خوف و خطر ہوں فنا مرے!

تیرا خیال پھر سے ہو دل کو عطا مرے!

اے کاش ساتھ ساتھ رہے تُو سدا مرے!


تاریکیوں میں نور ترا دل کے پاس ہو!

مایوسیوں میں دل کو بندھی تجھ سے آس ہو!
شاندار نظم ہے، احساسات کی عمدہ ترجمانی کی ہے آپ نے!
جس جذبے نے آپ سے یہ نظم لکھوائی ہے، خدا کرے وہ سچا ہو اور آپ کو وہ نور ملے جس کی آپ کو تلاش ہے۔
آمین! :rose:
 

الف عین

لائبریرین
واہ، رکھوں کہاں قدم نہیں ملتی زمیں مجھے
کیا جاندار مصرع ہے
بطور نظم مجھے دو تین مصرعے بدلنے کی ضرورت محسوس ہوئی
تیرے سوا ہے جو وہ ادھورا بیان ہے
اور
ملتا ہر ایک علم میں تیرا نشان ہے
دونوں واضح نہیں
اور
جینے کو میں نے تلخ ہی چکھّا ترے بنا
یہ مصرع بھی بدل دیں. رکھا چکھا قوافی کی جگہ دوسرے قوافی بھی لائے جا سکتے ہیں جیسے مداوا
اور ترے بنا کی جگہ 'ترے بغیر ' بھی تو ہو سکتا ہے
 

Wajih Bukhari

محفلین
واہ، رکھوں کہاں قدم نہیں ملتی زمیں مجھے
کیا جاندار مصرع ہے
بطور نظم مجھے دو تین مصرعے بدلنے کی ضرورت محسوس ہوئی
تیرے سوا ہے جو وہ ادھورا بیان ہے
اور
ملتا ہر ایک علم میں تیرا نشان ہے
دونوں واضح نہیں
اور
جینے کو میں نے تلخ ہی چکھّا ترے بنا
یہ مصرع بھی بدل دیں. رکھا چکھا قوافی کی جگہ دوسرے قوافی بھی لائے جا سکتے ہیں جیسے مداوا
اور ترے بنا کی جگہ 'ترے بغیر ' بھی تو ہو سکتا ہے
بہت مہربانی حضور کی۔ آپ کی وقیع رائے سے اتفاق ہے۔ یہ مصرعہ اب یوں ہے 'تیرے بغیر ہے جو ادھورا بیان ہے'۔ جب یہ نظم لکھی تھی تو 'ملتا ہر ایک علم میں تیرا نشان ہے' اس کا حصہ نہ تھا بلکہ اس کی جگہ مصرع تھا 'محور کی مثل دہر کے تو درمیان ہے'۔ لیکن مجھے لگا کہ اس سے بات شاید اتنی واضح نہیں پہنچ پائے گی۔
 
Top