سید ذیشان
محفلین
لذتِ حب خمار سے باہر
وصف جسکا شمار سے باہر
سینچنا باغِ ہستیِ پر شور
چشمِ صد سوگوار سے باہر
عمر اِک چاہے مدعا میرا
شوق پر انتظار سے باہر
اِک نئے باب کا ہوا آغاز
جسم نکلا جو دار سے باہر
میری خودی نے مجھ کو جکڑا تھا
نہ تھی حدِ پکار سے باہر
پیکر اِس پَل کے ہیں گئے اوقات
نکلوں کیونکر مدار سے باہر؟
ایسے مجنوں کہ ہیں لئے پھرتے
دل گریبانِ تار سے باہر
کتنے بکھرے ہیں زندگی کے رنگ؟
ارض کے شاہکار سے باہر
رہتا اندر ہوں شوق نگری کے
وقت کے اختیار سے باہر