برائے تنقید و اصلاح: لذتِ حب خمار سے باہر

سید ذیشان

محفلین
لذتِ حب خمار سے باہر
وصف جسکا شمار سے باہر
سینچنا باغِ ہستیِ پر شور
چشمِ صد سوگوار سے باہر
عمر اِک چاہے مدعا میرا
شوق پر انتظار سے باہر
اِک نئے باب کا ہوا آغاز
جسم نکلا جو دار سے باہر
میری خودی نے مجھ کو جکڑا تھا
نہ تھی حدِ پکار سے باہر
پیکر اِس پَل کے ہیں گئے اوقات
نکلوں کیونکر مدار سے باہر؟
ایسے مجنوں کہ ہیں لئے پھرتے
دل گریبانِ تار سے باہر
کتنے بکھرے ہیں زندگی کے رنگ؟
ارض کے شاہکار سے باہر
رہتا اندر ہوں شوق نگری کے
وقت کے اختیار سے باہر
 

سید ذیشان

محفلین
کاپی کر رہا ہوں، اب اگلے ’حملے‘ میں
بہت شکریہ، انتظار رہے گا۔

اس شعر کو تبدیل کر دیا ہے۔
ایسے مجنوں کہ ہیں لئے پھرتے
دل گریبانِ تار سے باہر
اب یوں ہو گیا ہے۔
ایسے مجنوں دل ہیں لئے پھرتے
لباسِ تار تار سے باہر
 

محمد وارث

لائبریرین
میری خودی نے مجھ کو جکڑا تھا
نہ تھی حدِ پکار سے باہر

خودی اور خدا کا ایک ہی وزن ہے اس لیے پہلا مصرعہ بے وزن ہو رہا ہے۔ خود، خودی، خویش، خواب، خواہش ان سب میں واؤ معدولہ ہے جو نہ بولنے میں آتی ہے اور نہ ہی اس کا کوئی وزن ہے۔
 

احمد بلال

محفلین
اگر اس طرح کر دیں تو کیسا رہے گا؟

ایسے مجنوں، ہیں دل لئے پھرتے
جیبِ صد تار تار سے باہر
پہلا مصرعہ اب بہتر ہے۔ دوسرے کو اگر اس طرح کر دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔
دامنِ تار تار سے باہر
زیادہ محل گریبان کا یا سینہ کا ہے۔
صد تار تار بھی مجھے صحیح نہیں لگ رہا۔
 

سید ذیشان

محفلین
پہلا مصرعہ اب بہتر ہے۔ دوسرے کو اگر اس طرح کر دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔
دامنِ تار تار سے باہر
زیادہ محل گریبان کا یا سینہ کا ہے۔
صد تار تار بھی مجھے صحیح نہیں لگ رہا۔
دامن ویسے گریباں کے نیچے والے حصے کو کہتے ہیں۔ استادِ محترم ہی اس پر کچھ کہہ سکتے ہیں۔
 

سید ذیشان

محفلین
خودی اور خدا کا ایک ہی وزن ہے اس لیے پہلا مصرعہ بے وزن ہو رہا ہے۔ خود، خودی، خویش، خواب، خواہش ان سب میں واؤ معدولہ ہے جو نہ بولنے میں آتی ہے اور نہ ہی اس کا کوئی وزن ہے۔
بہت شکریہ وارث بھائی۔ اس کا خیال نہیں رہا۔ اب درست کرتا ہوں۔ :)
 
Top