باہر کو اس معانی میں استعمال کیا ہے:
مقرر یا محدود مقام شے وغیرہ سے خارج۔
لذتِ حب خمار سے باہر
وصف جسکا شمار سے باہر
یعنی عشق کی لذت خمار کی دسترس سے باہر ہے۔ اور اس لذت کا وصف شمار میں نہیں آ سکتا۔
سینچنا باغِ ہستیِ پر شور
چشمِ صد سوگوار سے باہر
یعنی میں غمزدہ ہوں۔ لیکن میری آنکھیں اس دنیا کے ہنگاموں کے باغ کی آبیاری نہیں کر سکتیں کیونکہ وہ کسی اور غم میں مبتلا ہیں۔
یہ کچھ اسی طرح کا خیال ہے:
نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں
اِک نئے باب کا ہوا آغاز
جسم نکلا جو دار سے باہر
یعنی میرا جسم جب قتل گاہ سے نکلا تو اک نئے باب کا آغاز ہوا۔ اب اس میں دو باتیں ہو سکتی ہیں 1۔ عشق کی کتاب میں نئے باب کا آغاز ہوا۔ 2۔ میری زندگی کی کتاب میں نئے باب کا آغاز ہوا۔ یعنی سفرِ آخرت شروع ہوا۔
پیکر اِس پَل کے ہیں گئے اوقات
نکلوں کیونکر مدار سے باہر؟
یعنی جو "اب" کا لمحہ ہے- جو حال کا زمانہ ہے۔ وہ ماضی کے واقعات سے مل کر بنا ہے۔ اور میری تمام زندگی ان واقعات کے مدار کے گرد سفر کر رہی ہے۔ اب میں اس سے باہر کیسے نکلوں؟ یعنی تلخ واقعات سے کیسے چھٹکارا حاصل کروں؟
عمر اِک چاہے مدعا میرا
شوق پر انتظار سے باہر
//الفاظ کی نشست درست نہیں، یہ غلط فہمی ہو سکتی ہے کہ عمر مدعا چاہتی ہے، جب کہ یقیناً تمہارا خیال اس سے الٹ ہے
مدعا کو تو چاہئے اک عمر
شوق پر انتظار سے باہر
بہت شکریہ۔ اب بہتر ہو گیا ہے۔
میری خودی نے مجھ کو جکڑا تھا
نہ تھی حدِ پکار سے باہر
//خودی کا تلفظ غلط ہے۔ اور حدِ پکار کا بھی لکھ چکا ہوں۔ یہ شعر بھی فی الحال نا قابلِ اصلاح ہے۔
ایسے مجنوں کہ ہیں لئے پھرتے
جیب صد تار تار سے باہر
//کیا لئے پھرتے ہیں جیب سے باہر، یہ تو بتایا ہی نہیں!!
آپ نے دو مختلف اشعار کے مصرعے کاپی کئے ہیں
یہ شعر تبدیل کیا تھا۔
ایسے مجنوں، ہیں دل لئے پھرتے
دامنِ تار تار سے باہر
کتنے بکھرے ہیں زندگی کے رنگ؟
ارض کے شاہکار سے باہر
//کس شاہکار سے باہر؟
اس میں سیارہ زمین کے اندر زندگی کی بات ہو رہی ہے۔ زمین کے اندر جتنے بھی رنگ ہیں وہ اس میں پھیلی ہوئی زندگی (سبزہ، پھول، چرند، پرند) کی وجہ سے ہیں۔ اور یہاں پر سوال یہ کیا جا رہا ہے کہ کیا سیارہ زمین سے باہر بھی زندگی کی رمق ہے؟ یعنی پینٹنگ میں تو رنگ ہی رنگ ہیں۔ لیکن پینٹنگ سے باہر بھی کیا رنگ بکھرے ہوئے ہیں؟
رہتا اندر ہوں شوق نگری کے
وقت کے اختیار سے باہر
//شوق کے شہر ہی میں رہتا ہوں
وقت کے اختیار سے باہر
اندر کا لفظ اس لئے استعمال کیا تھا کہ وہ باہر کا متضاد ہے اور اس شعر میں خوبصورتی آتی ہے۔ آپ کہتے ہیں تو اس کو تبدیل کر دیتا ہوں۔