پہلے تو اتنے دن بعد کچھ لکھنے پر مبارک باد۔ پھر اچھا لکھنے پر مبارک باد۔ پھر علمِ نافع کے حصول پر مبارک باد۔ کیونکہ میں نافع اس علم کو جانتا ہوں جو خواہ مخواہ زندگی میں منعکس ہو اور عالم اور اس کے متعلقین کو فائدہ پہنچائے بغیر نہ رہے!
کون ہے جو جہاں سے اٹھتا ہے؟
شور اک آسماں سے اٹھتا ہے
بہت خوب صورت مگر قدرے نامکمل۔ آسمان سے شور کیوں اٹھتا ہے یہ تو بیان کر دیا گیا مگر یہ سوال تشنہ رہا کہ کیونکر اٹھتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی قرینہ اگر اس پر بھی ہوتا کہ مثلاً بجلی کڑکی یا بادل گرجے یا مینہ برسا تو شعر کی تاثیر دونی ہوتی۔
ایک آتش دخاں سے ہے اٹھتی
ایک سودا زیاں سے اٹھتا ہے
ایک آتش دخاں سے ہے اٹھتی
ایک سودا زیاں سے اٹھتا ہے
یعنی دھویں کو زیاں کہا ہے اور آگ کو سودا ۔ ٹھیک ہے لیکن سودا اور زیاں کا تعلق ؟ بات کچھ بنتی نہیں ہے۔
غالباً یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دھویں میں بھی ایک آگ مچلتی ہے۔ دوسرے مصرعے میں اس کی تعمیم کی ہے کہ گویا اس کاروبارِ سوز میں ہونے والے زیاں سے ایک نیا سودا پیدا ہو گیا۔ یعنی دھواں جو سراسر رائیگانی ہے اس میں سے بھی آگ کا وجود نکل آیا۔
خیال آفرینی کی داد واجب ہے مگر ابلاغ میں مسائل جناب کو بھی وہی ہیں جو غالبؔ کو تھے۔
نارِ زردشت ہی کا ایک شرر
شیخ کے ہر بیاں سے اٹھتا ہے
نارِ زردشت سے مراد معبودِ زردشت ہے۔
ع
دلم معبودِ زردشت است غالب فاش می گویم
دیوان کے پہلے شعر کی تشریح غالبؔ کو بھی یونہی کرنی پڑی تھی۔ اتنی بعید از فہم تلمیحات تو اس زمانے میں بھی لوگوں کو نہ بھائیں جب کلاسیکی علوم کا شیوع زیادہ تھا۔ آج کے زمانے میں آپ کا کیا ہو گا؟
کچھ تو ہے ماورا ز وہم و گماں
شائبہ یہ گماں سے اٹھتا ہے
خیال اور طرزِ ادا پر داد قبول کرو۔ محاورے کے باب میں ظہیرؔ بھائی درست فرما رہے ہیں مگر گمان سے شائبہ نکالنے کی تعریف لازم ہے۔ ماورائے وہم و گماں کی اصلاح سزاوارِ تعمیل ہے۔
وزنِ دنیا و آفتاب و قمر
کب قماشِ مکاں سے اٹھتا ہے؟
الفاظ شاید مناسب بہم نہیں پہنچ سکے۔ قماش بضمہ یا کسرۂِ اول اسباب، رخت، طرز، روش یا قسم کے معنوں میں آتا ہے۔ نیز دنیا کے ساتھ آفتاب اور قمر کا عطف سائنس کی رو سے تو کوئی عیب نہیں مگر ہمارے ادب کی تراکیب اس نہج پر نہیں تراشی گئیں۔ کار گاہِ ہستی جیسی کسی عمومی ترکیب کا استعمال ممکنہ طور پر یہاں زیادہ لطف دے گا۔
یوں ہے افتادگی نصیب اپنا
کون چاہِ زماں سے اٹھتا ہے؟
یوں ہے افتادگی نصیب اپنا
کون چاہِ زماں سے اٹھتا ہے؟
چاہِ زماں (یعنی زمانے کے کنویں) اور افتادگی میں کیا تعلق ہے ؟ یہاں غلطی سے ہندی لفظ چاہ تو استعمال نہیں کررہے ہیں آپ ؟!
زمیں دراصل ایک چاہِ زمان و مکان میں پڑی ہے اور ہم بھی۔
ہائے ری یہ طبیعیات آگہی!
نیوٹن کا لطیفہ یاد آ گیا جو کہا کرتا تھا کہ اے طبیعیات، مجھے ما بعد الطبیعیات سے بچانا۔ تم بھی میرؔ کی طرح رفتہ رفتہ سید ہو ہی جاؤ گے!
معنوی اعتبار سے شعر قابلِ فہم تو ہے مگر کامل نہیں معلوم ہوتا۔ یوں ہے کا ٹکڑا محلِ نظر ہے۔ غالباً یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ افتادگی
اس واسطے ہمارا نصیب ہے کہ زمانے کے گڑھے سے کوئی نکل نہیں سکتا۔
شورِ چنگ و رباب سے دلکش
کوئی نغمہ کہاں سے اٹھتا ہے؟
یہ غزل کے ان چند شعروں میں سے ایک ہے جن میں ردیف کا درست، بامعنیٰ اور فصیح استعمال ہوا ہے۔ ورنہ زیادہ تر ردیف کو وہ معانی دینے پر مجبور کیا گیا ہے جو محاورے کے مطابق اس کے نہیں۔
کوئی کے بارے میں ظہیرؔ بھائی درست فرما رہے ہیں۔ یہ حشوِ ملیح تو نہیں مگر اس کے آس پاس کی شے ہے۔ معمولی سے رد و بدل سے شعر بہتر ہونے کا واقعی امکان ہے۔ استفہام کے حوالے سے البتہ مجھے ان سے اختلاف ہے۔ شعر میں مخفی یا ظاہر استفہام اس کے حسن کو ہمیشہ مثبت یا ادعائی اظہار کی نسبت کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔
دودِ گردوں شگاف ابرِ سیاہ
میرے ہی آشیاں سے اٹھتا ہے
گردوں شگاف۔۔۔ واہ!
اس جزیرے پہ برف کے نابض
"یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے"
برف سے دھواں اٹھنا ایک عام مشاہدہ ہے(حقیقی دھواں نہیں ہوتا مگر کچھ ملتا جلتا ضرور ہوتا ہے) اور برف کے جزیرے یقیناََ دنیا میں موجود ہیں۔
شعر مکمل تو ہے مگر تھوڑی دیر لگے گی اس طرح اسے سمجھنے میں۔ اور اس معاملے میں میرا مسلک اب غالبؔ کی بجائے داغؔ والا ہے۔ یعنی خیال کا خنجر بھلے کند ہو، شاعر کا کمال یہ ہے کہ قاری کے ہوش سنبھالنے سے پہلے اس کے سینے میں گھونپ دے۔
---
میں رائے زنی میں تاخیر پر معذرت خواہ ہوں۔ امید ہے برا نہیں لگا ہو گا۔
دو تین باتیں اور بھی کہنی ضروری ہیں۔ میں نے دو ایک بار تمھاری اور عبداللہ کی نسبت یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ تم لوگوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے اپنا بچپن یاد آتا ہے۔ وجہ یہ تھی کہ میں نے زندگی میں شاعری کی پہلی کتاب غالبؔ کی خریدی تھی اور اسے سمجھنے کے جنون نے میری طبیعت اور کلام پر کم و بیش وہی اثرات مرتب کیے تھے جو آج تم لوگوں میں دیکھتا ہوں۔ مجھے اپنے شاعرانہ قد اور مستقبل کا علم نہیں مگر اپنی بابت ہر انسان خواب تو دیکھتا ہے۔ اور جب اسے اپنے جیسے دیوانے دو چار اور مل جائیں تو وہ خواب مل کر دیکھے جاتے ہیں اور تقویت پکڑی جاتی ہے۔
اسی منطق کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ تم پر غالبؔ کے جو اثرات ہیں وہ ذوقِ سلیم کی بدولت تا دیر نہیں رہیں گے۔ مگر انھیں دانستہ دور کرنے کی ضرورت نہیں۔ وقت خود مناسب سبق پڑھائے گا۔ اور جو غالبؔ کا شاگرد رہا ہو اس سے بہتر مستقبل کے ان اسباق کو کون سمجھ سکتا ہے۔ شکر ہے تم عصرِ حاضر کے اکثر نابغوں کی طرح جونؔ کے اسیر نہیں ہوئے۔ ورنہ ناقابلِ علاج ہو جاتے!
تمھاری فکری روش پر تو میں بہت خوش ہوں۔ اسلوب کا معاملہ یہی ہے کہ ابھی تم اس کی قدر کرنے کے قابل نہیں ہوئے۔ اردو اور فارسی کے جن نابغوں نے تمھیں متاثر کیا ہے اس کا منطقی نتیجہ یہی ہے کہ تم زبان و بیان کی طرف وہ توجہ ابھی نہیں دو گے جس کے یہ حق دار ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ شعور بھی بیدار ہو جائے گا۔ سفر ہے شرط۔۔۔!
میں نے اوپر تمام آرا ایک خاص تناظر میں دی ہیں۔ یعنی یہ کہ میں
ریحان کی غزل پر رائے دے رہا ہوں اور یہ کہ
میں رائے دے رہا ہوں۔ کسی اور کی غزل ہوتی تو یہ تنقید بالکل مختلف اور شاید زیادہ معروضی ہوتی۔
---
میں اتنا بڑا شاعر ہو گیا ہوں کہ تم میرا مصرع لکھو؟ اور وہ بھی بغیر حوالے کے؟